کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں
کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہل محفل
چراغِ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
پھُول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جِگر
مردِناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر
کہاں سے تُو نے اے اقبال، سیکھی ہے یہ درویشی
کہ چرچاپادشاہوںمیں ہے تیری بے نیازی کا
خواہشیں بادشاہوں کو غُلام بنا دیتی ہیں
مگر صبر غُلاموں کو بادشاہ بنا دیتا ہے
آنکھ جوکُچھ دیکھتی ہے ، لب پہ آسکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دُنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
عِلم میں بھی سرور ہے لیکن
یہ وہ جینّت ہے جِس میں حوّر نہیں
غُلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا ، تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
مجھکو باتوں میں لگائے رکھو۔۔۔۔
وہ مجھے یاد نا آنے پائے۔۔
عِلم میں بھی سرور ہے لیکن
یہ وہ جینّت ہے جِس میں حوّر نہیں
اپنے کردار پے ڈال کر پردہ اقبالؔ
ہر شخص کہہ رہا ہے زمانہ خراب ہے۔
دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ ،نئی صبح و شام پیدا کر۔
عقابی رُوح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں۔
پرندوں کی دُنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہین بناتا نہیں آشیانہ
نہ تو زمین کے لئے ہے نہ آ سمان کے لئے
جہاں ہے تیرے لئے ،تو نہیں جہاں کے لئے۔
شاہین کبھی پرواز سے گِر کر نہیں مرتا
پر دم ہے اگرتو، تو نہیں خطرۂ افتاد۔
ذرا سی بات تھی ،اندیشہ عجم نے اسے
بڑھا دیا ہے فقط زیبِ داستان کے لئے.
اس دور کی ظلمت میں ہر قلب پریشان کو
وہ داغِ محبت دے جو چاند کو شرمادے۔
ڈھو نڈتا پھرتا ہوں اے اقبال اپنے آ پ کو
آ پ ہی گویا مسافر آ پ ہی منزل ہوں میں۔
ایک بار آ جا اقبال ؔ پھر کسی مظلوم کی آواز بن کر
تیری تحریر کی ضرورت ہے کسی خاموش تقریر کو یہاں۔
علم نے مجھ سے کہا عشق ہے دیوانہ پن
عشق نے مجھ سے کہا علم ہے تخمینِ وظن۔
یورپ کی غلامی پے رضا مند ہوا تُو
مجھ کو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں۔
من کی دولت ہاتھ آ تی ہے تو پھر جاتی نہیں
تن کی دولت چھاؤں ہے ،آ تا ہے دھن جاتا ہے دھن۔
میں تجھ کو تجھ سے زیادہ چاہوں گا
مگر شرط ہے اپنے اندر میری جستجو پیدا کر
تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہلِ محفل
چراغِ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں
ستم ہوکے ہو وعدہ بے حجابی
کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں
جفا جو عشق میں ہوتی ہے وہ جفا ہی نہیں
ستم نہ ہو تو محبت میں کچھ مزہ ہی نہیں۔
اگر محبت کی تمنا ہے تو پھر وہ وصف پیدا کر
جہاں سے عشق چلتا ہے وہاں تک نام پیدا کر
اگر سچ ہے تیرے عشق میں تو اے بنی آدم
نگاہِ عشق پیدا کر جمالِ ظرف پیدا کر
بُرا سمجھوں انہیں مجھ سے ایسا ہو نہیں سکتا
کہ میں خود بھی تو ہوں اقبال نقتہ چینوں میں۔
اگر نہ بدلوں تیری خاطر ہر اِک چیز تو کہنا
تو اپنے اندر پہلے اندازِ وفا تو پیدا کر
یہ جنت رہے مبارک زاہدوں کو
کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں
ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا
وہی لن ترانی سننا چاہتا ہوں