مور جتنا اب خوبصورت ہے۔ اس سے کئی زیادہ جنت میں خوبصورت تھا۔ مور کی خوبصورتی پہ سبھی پرندے فدا تھے۔ لیکن ان سب خوبیوں کے باوجود مور سے ایسی کون سی خطا ہو گئی تھی؟ جس سے اللہ تبارک و تعالی نے مور کو جنت سے نکال دیا۔
اللہ تبارک و تعالی نے جب حضرت آدم علیہ السلام اور اماں ہوا کو پیدا فرمایا۔ اس کے بعد ان کو جنت میں بھیج دیا۔ وہ دونوں جنت میں بہت ہی پرسکون رہتے تھے۔ بہت ہی لذیذہ میوے پھل کھایا کرتے تھے۔ لیکن ایک اناج جس کو کھانے سے اللہ پاک نے انھیں منع فرمایا اور وہ اناج گندم تھا۔
چونکہ شیطان حضرت آدم علیہ سلام کی وجہ سے ہی جنت سے نکالا جا چکا تھا۔ اسی وجہ سے شیطان کی حضرت آدم علیہ سلام سے دشمنی ہو گئی تھی۔ شیطان یہ چاہتا تھا کہ وہ کسی بھی طرح حضرت آدم علیہ سلام کو جنت سے نکال دے اور ساتھ میں اماں حوا کو بھی جنت سے نکال دے۔
جب شیطان کو یہ خبر ہوئی کہ حضرت آدم علیہ کو تمام میوے کھانے کی اجازت ہے۔ لیکن گندم کھانے کی اجازت نہیں ہے۔ تو شیطان انتقام کی آگ دل میں لیے جنت کے دروازے کے پاس بیٹھ گیا۔ اور تین سو سال تک وہاں پر بیٹھا رہا کہ کوئی جنت کے دروازے سے باہر آئے اور شیطان اس سے بات کر سکے۔
ایک دن اچانک سے مور جنت سے باہر آگیا۔ شیطان اس کو دیکھتے ہی بہت خوش ہو گیا۔ شیطان نے پوچھا اے خوبصورت پرندے تم کون ہو؟ مور بولا میں مور ہوں۔ اب تم اپنا تعارف کرواؤ شیطان نے جواب دیا کہ میں عالم قروبیہ کا ایک فرشتہ ہوں۔ میں اللہ پاک کی عبادت سے ایک پل بھی غافل نہیں ہوں۔
میں چاہتا ہوں کہ میں جنت میں جاؤں۔ وہاں کی نعمتوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کروں۔ شیطان مور سےکہنے لگا کہ تم مجھے جنت کے اندر لے جاؤ۔ میں تمہیں تین ایسی باتیں بتاؤں گا۔ جس سے تمہیں ابدی زندگی حاصل ہو جائے گی۔ تمہیں بڑھاپا اور بیماری نہیں آئے گی۔ تم ہمیشہ جنت میں ہی رہو گے۔ شیطان کی یہ باتیں سن کر۔
لالچ میں آ کر مور نے کہا کہ مجھ میں تو اتنی طاقت نہیں ہے کہ میں تمہیں جنت کے اندر لے جاؤں۔ لیکن ایک سانپ میرا دوست ہے۔ وہ شاید تمہاری مدد سکے۔ یہ کہہ کر مور سانپ کے پاس آیا۔ اس کو ساری بات بتائی۔ سانپ بھی شیطان کی باتوں سے بہت خوش ہو گیا۔
پھر شیطان کو اپنے منہ میں چھپا کے جنت میں داخل ہو گیا۔ اور یوں شیطان اپنی چال میں کامیاب ہو گیا۔ جنت کے تمام نگہبانوں کو یہ معلوم تھا کہ شیطان یہ چال چل رہا ہے۔ اور جنت میں داخل ہو چکا ہے۔ فرشتے شیطان کو جنت سے نکالنے لگے۔
تب ہی اللہ پاک کا حکم ہوا کہ اس کو ابھی تک جنت میں ہی رہنے دیا جائے۔ وہ فرشتے اللہ تبارک و تعالی کے حکم سے رک گئے۔ شاید یہ حضرت آدم علیہ السلام کا امتحان تھا۔ شیطان حضرت آدم علیہ السلام کے پاس اور اماں حوا کے پاس جا کر اپنی محبت کا اظہار کرنے لگا۔
وہ دونوں ہی شیطان کو پہچان نہ سکے۔ کیونکہ ماضی کے مقابلے میں شیطان کی شکل تبدیل ہو چکی تھی۔ شیطان کہنے لگا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ دونوں ہمیشہ جنت میں اسی طرح زندگی گزاریں۔ ہمیشہ خوش رہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام اس کی بات بہت غور سے سننے لگے۔ شیطان نے کہا اگر آپ میری بات مان جائیں تو آپ کو جنت کی اور بھی تمام سہولتیں ملیں گی۔
حضرت آدم علیہ السلام شیطان کے بہکاوے میں آ کر کہنے لگے کہ یہ کس طرح ممکن ہے۔ شیطان کہنے لگا ایک گندم کا دانہ اگر آپ دونوں چکھ لیں۔ تو آپ کو ابدی حیا حاصل ہو جائے گی اور آپ جنت میں ہی رہیں گے۔ یہ بات سن کر حضرت آدم علیہ السلام کے دل میں رجحان پیدا ہوا۔ لیکن ان کے دل میں اللہ کی نافرمانی کا خوف غالب آ گیا۔
جبکہ اماں حوا شیطان کی باتوں میں آ گئی۔ جس پر اماں حوا نے حضرت آدم علیہ السلام کو راضی کر لیا۔ پھر اس کے بعد ان دونوں نے اس گندم کے دانے کو چکھ لیا۔ جیسے ہی گندم کا دانہ ان کے اندر گیا۔ تو دونوں کے ستر واضح ہوگئے۔ جس کے بعد دونوں اپنے اپنے ستر چھپانے لگے۔ اور خوفے خدا سے کانپنے لگے۔
اسی دوران اللہ تبارک و تعالی نے فرشتوں کو یہ حکم دیا کہ حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حوا دونوں کو زمین پر اتار دو۔ حضرت آدم علیہ السلام کو سری لنکا کے قریب نیچے زمین پہ بھیج دیا۔ جبکہ اماں حوا کو جدہ کی سرزمین پر اتارا گیا۔
جن خوبصورت پیروں سے چل کر مور شیطان کو جنت کے اندر لے کر آیا تھا۔ وہی خوبصورت پاؤں اللہ پاک نے مور سے لے لیے۔ سانپ جو اپنے منہ میں شیطان کو چھپا کر لایا تھا۔ اس کے منہ کی خوبصورت خوشبو کو چھین کر۔ اس میں زہر ڈال دیا گیا۔ پھر مور کے ساتھ ساتھ سانپ کو بھی جنت سے نکال دیا گیا۔