Sad quotes are poignant expressions that capture the profound depths of human emotions. They offer solace and understanding to those who have experienced heartbreak, loss, or moments of profound sadness. These quotes, filled with raw vulnerability, remind us of the fragile nature of life and the pain that accompanies it. While they may evoke tears and a sense of melancholy, they also hold the power to connect us with our shared human experience and provide a cathartic release for the emotions we often struggle to put into words.

 

اسکی بےوفائی پے بھی فدا ہوتی ہے جان اپنی اگر اس میں وفا ہوتی توہ کیا ہوتا خدا جانے

تو نے ہی لگا دیا الزام-ے-بےوفائی
عدالت بھی تیری تھی گواہ بھی تو ہی تھی

مل ہی جائےگا کوئی نہ کوئی
ٹوٹ کے چاہنے والا
اب شہر کا شہر توہ بےوفا ہو نہیں سکتا

بےوفائی کا موسم بھی
اب یہاں آنے لگا ہے
وہ پھر سے کسی اور کو
دیکھ کر مسکرانے لگا ہے

 

دل بھی گستاخ ہو چلا تھا بہت
شکر ہے کی یار ہی بےوفا نکلا

بہت عجیب ہے یے
محبّت کرنے والے
بےوفائی کرو توہ روتے ہے
اور وفا کرو توہ رلاتے ہے

تیری بےوفائی پے لکھوںگا غزلیں
سنا ہے ہنر کو ہنر کاٹتا ہے

مجھے معلوم ہے
ہم انکے بنا جی نہیں سکتے
انکا بھی یہی حال ہے
مگر کسی اور کے لئے

چلا تھا ذکر
زمانے کی بےوفائی کا
توہ آ گیا ہے
تمہارا خیال ویسے ہی

 

صرف ایک ہی بات سیکھی
ان حسن والوں سے ہمنے
حسین جس کی جتنی ادا ہے
وہ اتنا ہی بےوفا ہے

 

میری وفاؤں کو ٹھکرا دینے والے
کاش تجھے بھی کسی بےوفا سے پیار ہو جائے

کسی بےوفا کی خاطر یے جنوں کب تک
جو تمھیں بھول چکا ہے اسے تم بھی بھول جاؤ

 

کچھ الگ ہی کرنا ہے توہ وفا کرو
بےوفائی توہ سبنے کی ہے مجبوری کے نام پر

رسوا کیوں کرتے ہو تم عشق کو ائے دنیا والوں
محبوب تمہارا بےوفا ہے توہ عشق کا کیا گناہ

اب بھی تڑپ رہا ہے تو اسکی یاد میں
اس بےوفا نے تیرے بعد کتنے بھلا دیے

وہ سنا رہے تھے اپنی وفاؤں کے قصے
ہم پر نظر پڑی توہ خاموش ہو گئے

وفا نبھا کے وہ
ہمیں کچھ دے نہ سکے
پر بہت کچھ دے گئے
جب وہ بےوفا ہوئے

رہنے دے یے کتاب تیرے کام کی نہیں
اس میں لکھے ہوئے ہے وفاؤں کے تذکرے

اس دور میں کی تھی جس سے وفا کی امید
آخر کو اسی کے ہاتھ کا پتھر لگا مجھے

جو کیا ہوتا ہمنے پیار
کسی سچے انسان سے
یوں تکلیف توہ نہ ہوتی
اس بےوفا سے دل لگا کے

محبّت سے بھری کوئی غزل انہیں پسند نہیں
بےوفائی کے ہر شیر پے وہ داد دیا کرتے ہیں

 

باتوں میں تلخی لہجے میں بےوفائی
لو یے محبّت بھی پہنچی انجام پر

اتنی مشکل بھی نہ تھی راہ
میری محبّت کی
کچھ زمانہ خلاف ہوا
کچھ وہ بےوفا ہوئے

سکھا دی بےوفائی تمھیں بھی
ظالم زمانے نے
تم جو سیکھ لیتے ہو
ہم ہی پے آزماتے ہو

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here