مجھ سے میری وفا کا ثبوت مانگ رہے ہو
خود بےوفا ہو کے مجھ سے وفا مانگ رہے ہو

کچھ نہیں بدلہ محبّت میں یہاں
بس بےوفائی آم ہو گئی ہے

 

میری محبّت سچی ہے
اسلئے تیری یاد آتی ہے
اگر تیری بےوفائی سچی ہے
توہ اب یاد مت آنا

وہ کہتے ہے کی مجبوریاں ہے بہت
صاف لفظوں میں خود کو بےوفا نہیں کہتے

 

میرے فن کو تراشا ہے
سبھی کے نیک ارادوں نے
کسی کی بےوفائی نے
کسی کے جھوٹے وادوں نے

کیسے یقین کرے ہم تیری محبّت کا جب بکتی ہے بےوفائی تیرے ہی نام سے

اپنے تجربے کی آزمائش
کی زد تھی ورنہ
ہمکو تھا معلوم کے
تم بےوفا ہو جاؤگےے

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here