Home Blog Page 3

ہاتھی والوں کا قصہ

0

ابرہہ یمن کا حکمران تھا۔ اس نے یمن میں ایک عالیشان کلیسا تعمیر کر کے یمن کے لوگوں میں یہ اعلان کرا دیا کہ آئندہ کوئی شخص حج کے لیے مکہ مکرمہ نہ جائے اور اسی کلیسا کو بیت اللہ سمجھے۔

اس اعلان سے عرب کے لوگوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ پھر ان میں سے کسی شخص نے رات کے وقت اس کلیسا میں جا کر گندگی پھیلا دی۔ ابرہہ کو جب یہ معلوم ہوا، تو اس نے ایک بڑا لشکر تیار کر کے مکہ مکرمہ کا رخ کیا۔

راستے میں عرب کے کئی قبیلوں نے اسے روکنے کی کوشش کی۔ لیکن ابرہہ کے لشکر کے ہاتھوں انہیں شکست ہوئی۔ آخر کار یہ لشکر مکہ مکرمہ کے قریب ایک جگہ پہنچ گیا۔ اگلی صبح جب اس نے بیت اللہ کی طرف بڑھنا چاہا۔ تو اس کے ہاتھی نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا۔

اسی وقت اس کی طرف سے عجیب و غریب قسم کے پرندوں کا ایک غول آیا اور لشکر پر چھا گیا۔ ہر پرندے کی چونچ میں تین تین کنکر تھے۔ جو انہوں نے لشکر کے لوگوں پر برسانے شروع کر دیے۔ ان کنکروں نے لشکر کے لوگوں کے جسموں کو چیر کر رکھ دیا۔

یہ عذاب دیکھ کر سارے ہاتھی بھاگ کھڑے ہوئے۔ لشکر کے سپاہیوں میں سے کچھ وہی ہلاک ہو گئے اور کچھ جو بھاگ نکلے وہ راستے میں مرگئے۔ ابرہہ کے جسم میں ایسا زہر سرایت کر گیا کہ اس کا ایک ایک جوڑ گل سڑ کر گرنے لگا۔

اسی حالت میں اسے یمن لایا گیا۔ وہاں اس کے سارے بدن سے خون بہہ بہہ کر ختم ہو گیا۔ اس کی موت سب سے زیادہ عبرت ناک ہوئی۔ اس کے دو ہاتھی بان مکہ مکرمہ میں رہ گئے تھے۔ جو اپاہج اور اندھے ہو گئے۔

اس طرح اللہ پاک نے اپنے گھر کی حفاظت فرمائی اور طاقت پر غرور کرنے والوں کو سزا کا مزہ چکھایا۔ قرآن پاک کی سورۂ فیل میں اللہ پاک نے اس واقعے کو یوں بیان فرمایا۔

“کیا تو نے نہ دیکھا کہ تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟ کیا ان کے مکر کو بےکار نہیں کر دیا؟ اور ان پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیے۔ جو انہیں مٹی اور پتھر کی کنکریاں مار رہے تھے۔ پس انہیں کھاۓ ہوۓ بھوسے کی طرح کر دیا”۔ (آیت – ١ تا ٥)

ایک اچھا دوست

1

یاسین بہت جاوان جب وہ عراق سے انگلینڈ میں منتقل ہوگیا۔
یاسین اپنے گھر سامارا چہور کر نہیں جانا چاتی تھی لیکن سامارا اب بہت حترناک تھا۔
اس کا ابو نے کہا کے انگلینڈ ایک کثیر ثقافتی جزیرہ ہے جہاں سارے نسل اور مزہب کے لوگ ایک دوسرے کے سات خوشگوار کام کرتے ہیں۔

یاسین کا خاندان اپنے سامان لے کر لنڈن گئ.وہاں بہت اوچے عمارت اور عجائب گھر تھے اور یاسین کا پسندیدہ چیزیں سیارہوم اور دریا ٹیمز پورانا پل کے سات تھا۔
یاسین کجھ وقت کے بعد اپنی پروسی کے سات دوستی ہوئ،اس کا نام تھا غینڈرو۔

پوری گرمیوں کی تعطیلات وہ دونوں پارک گئ ، چڑیا گھر گئ ، غینڈرو نے یاسین کے سات اپنے کھلونے کھیلنے دیا اور اپنے پسندیدہ سپر ہیرو کے بارے میں بتایا اور دونوں نے یاسین کی باغ میں کیمپ بنایا۔

دن پر دن یاسین لنڈن کو گھر سمج لگا اور اس کا انگلیش بہتر ہونے لگا مگر وہ ابھی بولنے میں کمی تھی اور اسی لیۓ شرمندا مہسوس ہوا۔

جب ستمبر اگئ یاسین کو اسکول جانا زاروری تھا اس لیۓ وہ اداس ہوئ لیکن اس کا ابو نے بتایا تعلیم بہت زاروری ہے ۔

بعد میں یاسین کو پتا چل گئ کے وہ عینڈرو کا کلاش میں ہوں گی۔

اگلا دن عینڈرو اور یاسین ایک دوسرے کے سات اسکول گئ اور عینڈرو نے کھیل کا میدان، استاد ، مزاخیا لرکوں اور خوبسورات لرکیوں اور قارئین کے بارے میں بتایا۔ یاسین کبھی قارئین کو نہیں دیکھا لیکن عینڈرو بہت دلچسپی تھی تو وہ زارور اچھا ہوں گا۔

مگر جب وہ کلاسروم پہنچا استانی نے یاسین کو بتایا کے وہ سب کے سامنے اپنے نام بتادوں۔

ایک لرکا نے بولا ‘ بدبودار بے ملکی’ اور سب ہسنے لگۓ اور ایک اور لرکا نے کہا ‘استانی میں سمج نہیں کر سکتی۔وہ انگریز نہیں بول سکتا’ اور سب پھر ہسنے لگۓ۔

یاسین بہت اکیلا اور اوداس مہسوس کر رہا تھا اور استانی اس کو بیٹھنے کی اجازت دیا۔ یاسین عنڈرو کے بیٹھنے کی خوایش تھی مگر وہ ایک لرکی کے سات بیٹھنا پرا۔

وہ لرکی بار بار اجیب سے یاسین کو دیکھا اور وہ الگ کرسی بیٹھنے کے لیۓ استانی کو بولایا-

جب گھنٹی بجگئ سب اپنے کوٹ پین کر کھیلنے کے میدان میں گئ مگر استانی یاسین کو بولایا تاکی وہ اس کو ایک بیج دے سکتے جس کے اوپر یاسین کا نام لیکھا تھا۔

‘اب سب آپ کا نام فورن سیکھ لیں گۓ’ استانی نے کھا۔

یاسین نے اپنے دیماغ مین سوچھا ‘ اب سب مجہ پر اور ہسیں گی’

جب وہ باہر گیا ایک چہوٹا لرکا گھوبگھرالی سنہری بال کے سات یاسین کو لرکی کا نام کہا اور یاسین اس کو سمجانے کا موفا نہیں دیا اور سب پھر ہسرہے تھے۔

یاسین گہر جانا چاتا تھا۔

‘سلام یاسین!’

یاسین پیچھے دیکھ کر عنڈرو کو دیکھا-
عندرو نے دوسرے بچے دیکھ کر کہا

‘آپ سب سے کیا ہوا؟! مین نے اپنے دوست یاسین کو بتایا کے اسکول بہت اچھا ہے- آپ اس کا پہلا دن بوڑا کیو بنا رہے ہیں؟’

‘وہ ہم سے الگ ہے’ ایک لمبی لرکی نے بولا

‘تو؟ آپ بھی الگ ہے۔ آپ پورا اسکول میں سب سب سے لمبی ہےاور جب لوگ آپ کے بارے میں مزاک بناتے ہیں آپ اداس ہوجاتی ہے’

‘اور آپ’ عینڈرو گھوبگھرالی بال لرکا کو دیکھ رہا تھا ‘آپ اداس ہوتے ہے جب لوگ آپ کا بال لرکی کا بال بولتے ہیں’

‘ ہم سب الگ ہیں اور اگر ہم سب ایک دوسرۓ کے ترہا ہوتے ہیں تو زنداگی کیسی ہون گی؟’

سارے بچے خاموش ہو گئ پھر یاسین اپنا سر اوچا رکھ کر مسکرایا اور کہا ‘بوڑینگ’

‘بالکل!’ بہت بوڑینگ’ عنڈرو بھی مسکرایا۔

پھر سارے بچے ایک دوسرے کے سات کہا ‘ بہت بوڑینگ!’

عنںدرو نے کہا کے یاسین سئ ترہا الگ ہے کیونکہ وہ ہاٹ ڈاگز کو پسند نہیں کرتا۔

سب ہسنے لگا اور سب کو بتایاوہ چیز جو ان الگ بناتے ہیں۔

پیٹڑ جینکینز نے اس کا کمیز اٹھا کر سب اس کا جنام کا نشانی فخر کے سات دیکھایا۔

جب کھیلنے کا وقت ختم ہوا عنڈرو نے ہات اٹھا کر استانی کو پوچا ‘کیا ہم اس لوگوں کے بارے میں بات کرسکتے ہیں جو دوسرے ملک سے انگلینڈ آگئ ایک نیا زندگی شرؤ کرنے کے لیۓ ، میرا دوست یاسین کی ترھا؟’

استانی نے کہا انفرادیت زاروری ہے مگر بریتانیءہ کی خوبسوراتی یۓ ہے کی وہ ایک کثیر ثقافتی جزیرہ ہے۔

یاسن نے کتاب مین دو لفظ لیکھا اور اپنے آپ سے واداہ کیا کی وہ اس لفظ کو سیک لوں گی اور ہمیشا یاد کروں گی۔

وہ ‘دوست’ بھی اپنۓ کتاب مین لیکھا کینکہ وہ بہت شکر گزار تھا کے اس نے ایک سچا دوست ملا جو اس کو کبول کرتا ہے۔

!بعد میں

0

آسکر ہر روز اپنے طریقے سے سب کچھ کیا کرتا تھا۔ آسکر جو چاہتا کھاتا، جب چاہتا کھیل کھیلتا اور جب چاہتا سوجاتا۔ اگر اس کی ماں اسے اپنی صفائی کرنے یا رات کے کھانے کے لیے نیچے آنے کو کہتی، تو وہ چیختا کہ ‘بعد میں!’ اور جو کچھ وہ کر رہا ہوتا اسے جاری رکھتا۔

ایک دن، آسکر پارک میں اپنے بہترین دوستوں کے ساتھ کھیلنے کے بعد اسکول سے دیر سے گھر آیا۔

میں گھر ہوں!’ اس نے دالان میں جمائی لی ۔ ساری دوپہر کھیل کر وہ تھک گیا تھا۔

‘ہیلو، ہنی!’ آسکر کی ماں نے واپس جواب دیا۔

آسکر اگلا کام کرنے چلا گیا جو اس کی روزانہ کی فہرست میں تھا۔ اس نے الماری سے کافی اسنیکس لیے اور پھر سورج غروب ہونے تک ویڈیو گیمز کھیلتا رہا۔ اس کے اردگرد کمرہ انتہائی تاریک ہونے لگا۔ صرف ٹی وی سے روشنی آ رہی تھی ، جس سے ایک آواز پیدا ہو رہی تھی۔

‘اوہ، اوہو!’ آسکر نے کنٹرولر کو صوفے پر مارا۔ اس نے مٹھی بھر کرسپس اٹھائے ۔ ان میں سے نصف اس کے منہ تک پہنچنے سے پہلے ہی ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے تھے۔

‘مجھے یہاں ایک موقع دو!’ اس نے کھیل میں اپنے دوستوں سے کہا۔ انہوں نے اونچی آواز میں جواب دیا۔

‘آسکر!’ اس کی ماں کچن سے چلائی۔

اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔

‘دوستو یہاں آؤ!’ وہ اسکرین پر چلایا۔

‘آسکر!’ اس کی ماں نے دہرایا۔

اس بار وہ زور سے چلائی تھی، اور وہ تھوڑی تھکی ہوئی لگ رہی تھی۔

‘ہاں؟!’ آسکر نے اپنا ہیڈسیٹ اتار دیا۔

‘رات کا کھانا تیار ہے!’

آسکر نے آنکھیں گھمائیں جب اس نے اپنا ہیڈسیٹ دوبارہ پہن لیا اور خود کو صوفے پر  برجمان کر لیا۔

‘بعد میں!’ اس نے واپس جواب دیا ۔

بعد میں ، اور آسکر کی ماں اس کے کمرے میں چلی گئی۔ وہ اس کے کھانے کے لیے کھانے کی پلیٹ لے گئی۔ وہ اچانک دروازے کے اندر ہی رک گئی۔

‘آسکر، کیا تم اس گندگی کو صاف کر سکتے ہو؟’

آسکر نے جتنا زیادہ کھایا تھا، اتنے ہی زیادہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اس کے ارد گرد بکھرے ہوئے تھے۔ وہ صوفے پر جمع  شدہ بچ جانے والے ریپرز اور خالی پیکجوں سے گھرا ہوا تھا۔

آسکر نے اپنی ماں کو دیکھا۔

‘بعد میں!’ وہ ویڈیو گیم کے شور پر چیخا۔

اس کی ماں نے ایک آہ بھری جب وہ گندگی صاف کرنے لگی۔

اگلے دن، آسکر ناراض اور مایوس گھر آیا کیونکہ اسے اسکول میں امتحان مشکل محسوس ہوا تھا ۔ اس نے اپنے آپ کو  لطف اندوز کرنے کے طور پر کچھ کیک کھانے کا فیصلہ کیا۔

آسکر جیسے ہی پہلا نوالہ لینے ہی والا تھا کہ اس کی ماں نے اسے دوسرے کمرے سے بلایا۔ اس نے آہ بھری، اپنا کیک نیچے رکھا اور اپنی ماں سے بات کرنے کے لیے چلا گیا۔

وہ اکھڑا ہوا نظر آرہا تھا۔ اس کے بازو بندھے ہوئے تھے۔ آسکر جو لفافہ ابھی ابھی گھر لایا تھا وہ پھٹا ہوا تھا، اور اس کے ہاتھ میں ایک خط تھا۔

‘آسکر، ہمیں اسکول میں ہونے والی کسی چیز کے بارے میں بات کرنے کی ضرورت ہے۔’

اس نے اسے اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

آسکر جھپٹا مار کر بیٹھ گیا۔ اس نے سوچا کہ وہ جانتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے۔

آسکر، میں نے تمہاری استانی کا یہ خط پڑھا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ آپ اپنے ٹیسٹوں میں دھوکہ دے رہے ہیں اور اپنے دوست کے کام کی نقل کر رہے ہیں۔

آسکر کو اچانک غصہ آگیا۔ اس نے صرف اس لیے نقل کیا تھا کہ اسے اس میں سے کچھ سمجھ نہیں آتی تھی ۔

‘ خیر ، وہ مجھے اس کی نقل کرنے دیتا ہے!’ اس نے غصے کے ساتھ ایک آہ بھری اور بازو جوڑ لیے۔

اس کی ماں نے بھی ایک آہ بھری لیکن پھر اسے ہلکی سی مسکراہٹ دی۔

‘ کوئی بات نہیں ، آسکر. دیکھو، اگر آپ جدوجہد کر رہے ہیں، میں مدد کر سکتی ہوں۔ چلو آج رات شروع کرتے ہیں، ٹھیک ہے؟

آسکر تھکا ہوا اور تنگ آچکا تھا۔ سب سے پہلے، اس کی استانی نے اس کے بارے میں اس کی ماں کو بتایا اور پھر اس کی ماں نے اس کی استانی کا ساتھ دیا! وہ اس معاملے سے دور کیوں نہیں رہ سکتی تھی؟

وہ چھلانگ لگا کر اپنے قدموں پر آگیا۔ اس کے ہاتھ پہلوؤں سے جکڑے ہوئے تھے۔

‘بعد میں!’ اس نے چیخ کر کہا۔ وہ بھاگتا ہوا اپنے بیڈ روم میں چلا گیا۔

اس رات کے بعد، آسکر بڑبڑایا جیسا کہ اس نے اپنے آپ کو بیڈ پر گرایا اور اپنے بستر پر پہلو پر پہلو تبدیل کر رہا تھا ۔ وہ سو نہ سکا۔

ہر ایک کو ہر وقت سب کچھ کرنے کی ضرورت کیوں پڑتی تھی؟ وہ اسے وہ کرنے کیوں نہیں دیتے جو وہ چاہتا تھا؟ اس کی خواہش تھی کہ سب اس کا پیچھا کرنا چھوڑ دیں ۔ اس نے خود سے وعدہ کیا کہ وہ مستقبل میں اپنے لیے سب کچھ کرے گا، چاہے اس کا مطلب امتحان میں دھوکہ دہی ہو۔

اس رات آسکر نے خواب دیکھا کہ وہ اپنا پسندیدہ اسنیکس کھاتے اور دن بھر اپنے بہترین دوستوں کے ساتھ پارک میں کھیلتا رہا۔

اگلی صبح آسکر گہری نیند سے چونک گیا۔ اس کی کھڑکی کے باہر ایک گرج چمک اٹھی۔ بارش شیشے پر زور سے پڑی۔

‘ماں؟’ آسکر نے خاموش گھر  میں پکارا۔

خاموشی نے اسے جواب دیا۔

وہ نیچے کی طرف بھاگا لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔ آسکر نے بس کندھے اچکا دیے، کبھی کبھی اس کی ماں کو آخری لمحات میں کام پر بلایا جاتا تھا۔ وہ عام طور پر اسے بتانے کے لیے ایک نوٹ چھوڑ دیتی تھی کہ اس نے اس کا پسندیدہ ناشتہ بنایا ہے اور اسے لپیٹ کر کاؤنٹر پر رکھ دیا ہے۔ اس نے ہر طرف نظر دوڑائی لیکن کوئی نوٹ یا ناشتہ نظر نہیں آیا۔

‘اوہ اچھا،’ آسکر نے اپنے آپ سے بلند آواز میں کہا۔ اس نے ناشتے کے لیے اپنے پسندیدہ اسنیکس پکڑے۔

آسکر بدحواسی کے ساتھ اسکول چلا گیا، یہ یاد کرتے ہوئے کہ اس دن اسے ایک اور امتحان کا سامنا کرنا  ہو گا۔ جب وہ کلاس میں پہنچا تو اسے احساس ہوا کہ وہ جس دوست سے عام طور پر نقل کرتا تھا وہ کہیں بھی نہیں تھا۔ اس نے آسکر کو نہیں بتایا تھا کہ وہ وہاں نہیں ہوگا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس نے اساتذہ کو بھی نہیں بتایا تھا۔ جب آسکر نے ان سے پوچھا تو وہ بالکل بے خبر تھے۔

آسکر بھی اس دن اسکول کے بعد گھر آنے سے زیادہ خوش نہیں تھا۔ امتحان کی وجہ سے وہ ناخوش تھا۔ آسکر کو بارش سے نفرت تھی، لیکن ایسا نہیں لگتا تھا کہ وہ رکنے والی ہے۔ بارش کا مطلب تھا کہ وہ باہر رہنے اور کھیلنے کے قابل نہیں تھا، لیکن جس دوست کے ساتھ وہ گھومنا چاہتا تھا وہ بھی غائب ہو گیا تھا۔ تو ویسے بھی اس کے ساتھ کھیلنے والا کوئی نہیں تھا۔

‘ٹھیک ہے، کم از کم میں اب گھر ہوں،’ اس نے سوچا۔

‘میں واپس آ گیا ہوں!’ اس نے خالی گھر میں اعلان کیا۔

اس کی ماں ابھی تک کہیں نہیں ملی تھی۔

آسکر کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو گئی۔ یہ عجیب تھا۔ عام طور پر، اگر اس کی والدہ زیادہ دیر تک گھر سے دور رہتی تو وہ اس کی دیکھ بھال کے لئے کسی اور کا انتظام کیا کرتی تھی۔

اس نے کندھے اُچکائے۔

‘میں بعد میں اس کی فکر کروں گا،’ اس نے خود سے کہا۔

اس نے اپنا پسندیدہ ویڈیو گیم کھیلنا شروع کیا۔ اس نے بہت سارے اسنیکس کھائے، رات کا کھانا چھوڑ دیا اوروہ اس رات دیر سے سویا۔

صبح ہو گئی۔ آندھی اور بارش نے آسکر کی کھڑکی پر زور سے دستک دی اور ٹکرائی۔

‘ہفتہ کا دن ہے!’ آسکر ایک پرجوش مسکراہٹ کے ساتھ اٹھا۔ اسے یاد آیا کہ وہ اور اس کی ماں کئی ہفتوں سے ایک دن باہر جانے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔

آسکر نیچے کی طرف بھاگا لیکن جب وہاں کوئی نہیں تھا تو رک گیا۔ آخرکار اسے فکر ہونے لگی۔ اس دن آسکر نے ہر وہ جگہ دیکھی جہاں اس کی ماں جا سکتی تھی۔ اس نے اپنے جاننے  والوں سب کو بلایا لیکن کسی نے جواب نہیں دیا۔ اس نے شہر کے ارد گرد پوچھا، لیکن بارش کی وجہ سے شاید ہی کوئی آس پاس تھا۔ آسکر جن لوگوں کو جانتا تھا اور ڈھونڈ سکتا تھا، ان میں سے کسی نے اس کی ماں کو نہیں دیکھا تھا۔

آسکر مایوسی محسوس کرتے ہوئے گھر واپس آیا۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ رو رہا ہے جب وہ باورچی خانے میں تمام گندگی کے نیچے کھانے کے لئے کچھ تلاش کر رہا تھا۔ گھر تباہی کا شکار تھا۔ آسکر کو اتنے کوڑے کے نیچے اپنے پسندیدہ کھلونے بھی نہیں مل سکے۔

آسکر اس رات سونے کے لیے بہت پریشان تھا۔ اس نے کھڑکی سے آسمان کی طرف دیکھا۔

‘میں معافی چاہتا ہوں. مجھے بہت افسوس ہے،’ اس نے بلند آواز میں کہا۔ ‘میرا مطلب ہر اس شخص کے لیے نہیں تھا جو میری پرواہ کرتا ہے کہ وہ چلا جائے۔ میں ایک وقفہ چاہتا تھا، لیکن اس طرح نہیں! میں چاہتا ہوں کہ سب کچھ معمول پر آجائے۔ براہ کرم، براہ کرم، میرا یہ مطلب نہیں تھا کہ ایسا ہو۔

اگلی صبح، آسکر کے سوئے ہوئے چہرے پر چمکتا ہوا سورج چمکا۔ وہ تازگی محسوس کرتے ہوئے اٹھا۔ وہ ایک لمحے کے لیے سب کچھ بھول گیا تھا۔ اچانک اسے یاد آیا۔

آسکر نیچے کی طرف بھاگا، ایک وقت میں دو سیڑھیاں پھلانگتا ہوا ،  گرنے سے بچنےکی کوشش کرتے ہوئے جب اس نے اپنی ماں کو پکارا۔

اسے دیکھتے ہی وہ لینڈنگ پر رک گیا۔ وہ مسکرائی جب وہ اسے گلے لگانے کے لیے بھاگا۔

‘ آپ واپس آگئی ہو! آپ واپس آگئی ہو!’ اس نے رو کر پکارا۔

وہ ہنسی اور اسے مضبوطی سے تھام لیا۔ ‘کیا تم نے کوئی برا خواب دیکھا ہے، جان؟’

اس نے اپنا سر ہلایا جب اس نے اسے  زور سے گلے لگایا اور وہ زور سے ہنسی،

آسکر نے اس ہنسی کو بہت یاد کیا تھا۔

‘اب چلو۔ جمعہ ہے، اسکول کے لیے تیار ہو جاؤ ورنہ پھر دیر ہو جائے گی۔’

آسکر نے اس کے گال پر بوسہ دیا۔

‘بعد میں!’ اس کی زبان کی نوک پر تھا۔ یہ اتنی پرانی عادت تھی۔ تاہم، اس نے ایک گہرا سانس لیا اور کہا، ‘ٹھیک ہے! میں ابھی تیار ہوتا ہوں۔

پتھر کا سوپ

0

بہت عرصہ پہلے، ایک گاؤں میں جو ندی سے زیادہ دور نہیں تھا، ایک مہربان سپاہی دھول بھری گلی سے نیچے جا رہا تھا۔ اس کی حرکت سست تھی کیونکہ وہ  سارے دن سے چل رہا تھا۔ اسے ایک اچھا، گرم کھانا کھانے کے علاوہ اور کچھ پسند نہیں تھا۔ جب وہ سڑک کے کنارے ایک عجیب و غریب گھر پر پہنچا تو اس نے اپنے آپ میں سوچا، ‘یہاں رہنے والے کے پاس میرے جیسے بھوکے مسافر کے ساتھ

بانٹنے کے لیے کچھ اضافی کھانا ضرور ہوگا۔ میرا خیال ہے میں جا کر پوچھوں گا۔’

اور یوں سپاہی گوبھیوں، آلوؤں، پیازوں اور گاجروں سے بھرے باغ سے گزرتے ہوئے لکڑی کے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ گھر کے سامنے پہنچ کر جیسے ہی دستک دینے کے لئے اس نے ہاتھ بڑھایا  تب دروازہ اچانک کھل گیاا۔ دوسری طرف ایک بوڑھا آدمی کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ کولہوں پر تھے اور اس نے تیوری چڑھائی ہوئی تھی۔

‘تم کیا چاہتے ہو؟’ بوڑھے نے بدتمیزی سے کہا۔ پھر بھی سپاہی اسے دیکھ کر مسکرایا۔

‘ہیلو، میں ایک گاؤں کا سپاہی ہوں جو یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے۔ میں آپ کے پاس یہ پوچھنے آیا ہوں کہ کیا آپ کے پاس کوئی کھانا ہے جو آپ دے سکتے ہیں۔’

بوڑھے نے سپاہی کو اوپر نیچے دیکھا اور بہت دو ٹوک جواب دیا۔ ‘نہیں. اب چلے جاؤ۔’

سپاہی اس سے باز نہ آیا – اس نے ایک بار پھر مسکرا کر سر ہلایا۔ ‘میں دیکھ رہا ہوں، میں صرف اس لیے پوچھ رہا ہوں کہ میرے پاس اپنے پتھر کے سوپ کے لیے کچھ اور اجزاء ہوں گے، لیکن میرا اندازہ ہے کہ مجھے یہ سادہ ہی کھانا پڑے گا۔ اگرچہ اتنا ہی مزیدار!’

بوڑھے نے بھنویں اچکا لیں۔ ‘پتھر کا سوپ؟’ اس نے پوچھا۔

‘جی جناب،’ سپاہی نے جواب دیا، ‘اب اگر آپ مجھے جانے کی اجازت دیں گے…’

سپاہی راستے کے بیچ میں چلا گیا اور اپنے سامان میں سے ایک لوہے کی دیگچی نکالی۔ ایک بار جب اس نے پانی سے بھر لیا تو اس کے نیچے آگ لگانے لگا۔ پھر بڑے اہتمام کے ساتھ اس نے ریشم کے تھیلے سے ایک عام سا نظر آنے والا پتھر نکالا اور آہستہ سے اسے پانی میں گرادیا۔

بوڑھا حیرانی سے اپنی کھڑکی سے یہ سب دیکھ رہا تھا۔

‘پتھر کا سوپ؟’ اس نے خود سے پوچھا۔ ‘یقیناً ایسی کوئی چیز نہیں ہے!’

اور تھوڑی دیر بعد سپاہی کو ایک چھوٹی سی چھڑی سے پانی ہلاتے دیکھ کر، بوڑھا آدمی باہر نکلا اور سپاہی سے پوچھا، ‘تم کیا کر رہے ہو؟’

سپاہی نے اپنے برتن سے نکلنے والی بھاپ کی سونگھ لی اور اپنے ہونٹوں کو چاٹتے ہوئے کہا، ‘آہ، مجھے پتھر کے سوپ سے زیادہ کوئی چیز پسند نہیں ہے۔’ اس نے پھر بوڑھے کی طرف دیکھا اور کہا، ‘یقیناً۔ تھوڑے سے نمک اور کالی مرچ کے ساتھ پتھر کے سوپ سے کم ہی چیزیں بہتر ہیں ۔’

ہچکچاتے ہوئے، بوڑھا اندر گیا اور نمک اور کالی مرچ لے کر آہستہ آہستہ سپاہی کے حوالے کر دیا۔

‘بالکل!’ سپاہی نے پکارا جب اس نے انہیں برتن میں چھڑک دیا۔ اس نے ایک بار پھر بوڑھے آدمی کی طرف دیکھنے سے پہلے اسے ہلایا، ‘لیکن آپ جانتے ہیں، میں نے ایک بار گوبھی کے ساتھ پتھر کے اس حیرت انگیز سوپ کا مزہ چکھا تھا۔’

اس کے بعد بوڑھا آدمی اپنے گوبھی کے پودوں کے پاس پہنچا اور سب سے پکی ہوئی گوبھی اٹھا کر سپاہی کو دے دی۔

‘اوہ، کتنی  شاندار ہے!’ سپاہی نے گوبھی کو کاٹ کر برتن میں ڈالتے ہوئے کہا۔

اس نے برتن کی ایک گہری سونگھ لی اور بوڑھے سے کہا، ‘تم جانتے ہو، یہ چند گاجروں کے ساتھ بادشاہ کے لیے سوپ ہو گا۔’

بوڑھے نے سوچتے ہوئے کہا، ‘مجھے لگتا ہے کہ میں کچھ گاجر لا سکتا ہوں ،’ اور وہ گاجروں کے پاس گیا اور مٹھی بھر توڑ لایا ۔

جب اسے گاجریں پیش کی گئیں تو سپاہی بہت خوش ہوا۔ اس نے انہیں کاٹ کر ایک بار پھر برتن کو ہلایا۔

اور یوں چلتا رہا۔ بوڑھا آدمی برتن کی خوشبو سے خوش ہونے لگا جب وہ پیاز، آلو، گائے کا گوشت وغیرہ لے کر آیا۔ سپاہی نے خود بھی اپنے تھیلے میں مشروم اور جو جیسی چیزیں شامل کیں، یہاں تک کہ اس نے اعلان کیا کہ سوپ تیار ہے۔

بوڑھا آدمی سپاہی کی طرف دیکھ کر مسکرایا جب اس نے آدھا سوپ اسے پیش کیا۔

‘آپ اندر کیوں نہیں آتے؟ میرے پاس آج صبح بیکری سے سیدھی لائی گئی تازہ ڈبل روٹی ہے جو پتھر کے سوپ کے ساتھ مزیدار ہو گی۔’ اس نے شفقت سے کہا۔

اور اس طرح بوڑھے آدمی اور سپاہی نے مل کر ایک شاندار کھانا کھایا۔ سپاہی نے اپنے تھیلے سے دودھ کا ایک ڈبہ نکالا اور وہ بھی  شیئر کیا۔ بوڑھے آدمی نے سپاہی سے اتفاق کیا کہ سوپ اس سے بہتر تھا جو اس نے پہلے کبھی چکھا تھا۔

یہ اس وقت تک نہیں ہوا تھا جب تک کہ سپاہی نے اسے ریشم کا تھیلا نہیں دیا تھا جس میں پتھر تھا بوڑھے کو حقیقت معلوم ہو گئی۔ ۔ یہ وہ پتھر کبھی نہیں تھا جس نے مزیدار سوپ بنایا ہو۔ بلکہ، مل کر کام کرنے اور فراخدلی سے، وہ اور سپاہی دونوں ایک ایسا لذیذ کھانا بنانے میں کامیاب ہو گئے تھے جسے وہ اپنے درمیان  شیئر کر سکتے تھے۔

دھوبی کا گدھا

0

ہارون ایک چھوٹا سا لڑکا تھا جو کراچی (پاکستان کا سب سے بڑاشہر اور بندر گاہ)کے بیرونی علاقے کے ایک گاؤ ں میں رہتا تھا۔ ہارون اپنے گاؤ ں کے چھوٹے سے پرائمری سکول میں پڑھنے  جایا کرتا تھا جو کہ اس کے گھر سے کوئی ایک میل کے فاصلے پر تھا۔ اسکی جماعت کا کمرہ بہت کشادہ تھاجس میں  پٹ سن  کی بنی ہوئی بہت لمبی لمبی چٹائیاں فرش پر لمبی اور سیدھی قطاروں میں بچھی ہوتی تھیں۔ بچےّ ان چٹا ئیوں پر  تختہ سیاہ اور استاد کیطرف منہ کرکے بیٹھتے تھے۔ بچوّ ں کے لئے کوئی میز اور کرسیاں نہیں تھیں۔صرف ایک ڈیسک کمرے میں سب کے سامنے  کی طرف تھا جو کہ صرف  استاد کے استعمال میں تھا۔وہاں ایک طرف ایک الماری بھی تھی جس میں بچوّ ں کی کاپیاں اور کتابیں وغیرہ رکھی ہوئی  ہوتی تھیں۔ ان چند چیزوں کے علاوہ اس کمرے میں کوئی فرنیچر نہیں تھا۔ ان دنوں میں گاؤ ں کے چھوٹے سکولوں میں عام طور پر یہی طریقہ ہوتا تھا۔   

ہارون ایک اچھا لڑکا تھا جو کہ اپنے بڑے بزرگوں، اپنے والدین اور اپنے استاد کی عزّ ت کیا کرتا تھا۔ وہ روزانہ  بہت صبح سویرے اٹھتا   تاکہ وقت پر تیاّ ر ہو کر ناشتہ کرے، اور پھر وہ گھر سے نکل کر کھیتوں کے درمیان سے گزرتا ہوا  لمبا سفر طے کرکے سکول میں وقت سے پہلے پہنچ جائے۔وہ بہت محنت کرتا اور ہمیشہ اپنا سکول کا کام ختم کرتا۔ وہ ہمیشہ اپنے والدین کی اس نصیحت پر عمل کرتا کہ آج کا کام کبھی کل پر مت چھوڑو۔

سکول میں تفریح کے وقت ہارون اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل کے میدان میں کبڈّ ی کھیلا کرتا تھا۔ یہ کھیل پاکستان کے دیہاتی علاقوں کے نو جوانوں کے درمیان بہت مقبول ہے، اور ہارون کو بھی یہ کھیل کھیلنا بہت پسند تھا۔

ہارون کے ہمسائے میں ایک دھوبی بھی  رہا کرتا تھاجس کا نام تاجوُ تھا ۔ تاجوُ کے پاس ایک مر یل سا گدھا تھا جس پر سوار ہو کر وہ ہر ہفتے قریب کے ایک قصبےمیں جاتا اور وہاں کے لوگوں سے میلے کپڑوں کی گٹھڑیاں جمع کرکے لاتا۔ پھروہ گدھے پر سوار ہو کر کپڑوں کے ساتھ دریا پر جاتا اور وہاں پر وہ کپڑے دھو کر لاتا۔

تاجوُ کی ایک بری عادت تھی کہ جب وہ گدھے پر سوار ہوتا تو وہ بچارے گدھےکی ٹانگوں پر  زور  زور سے چھڑ ی مارتا جاتا تھا، تب وہ گدھا ایک بھیانک سی آواز  نکالتا تھا۔ ’ ڈھیں  ہوُ ں ،  ڈھیں ہوُ ں ‘  اور ساتھ ہی  تاجوُ  اپنا اور  بھاری  گٹھڑیوں کا بوجھ بھی اس پر لادے ہوئے ہوتا تھا۔پھر شام کو وہ گدھے پر سوار دھلے ہوئے کپڑوں  کی گٹھڑیوں کا بوجھ بھی اس پر لادے ہوئے اس کی ٹانگوں پر چھڑی مارتا ہوا واپس  آتا  تھا۔ جب دھوبی پاس سے گزرتا تو  ہارون اکثر گدھے کی یہ بھیانک اور غمزدہ آواز سنتا، اور گدھے کے بارے میں پریشانی کی وجہ سے وہ بچہّ رات کو سو نہ سکتا۔

دوسرے دن صبح کے وقت بھی سکول جاتے  ہوئے ہارون دھوبی کو  گدھے پر دھلے ہوئےکپڑوں کےساتھ سوار شہر کی طرف جاتے ہوئے  دیکھتا، جو ہمیشہ کی طرح گدھے کو لمبی چھڑی کے ساتھ   پیٹتا جاتا تھا۔بچارہ چھوٹا سا لڑکا اکثر بہت غور  و فکر سے  دیر تک اس کے بارے میں سوچتا رہتا کہ کس طرح اس گدھے کو   تاجوُ  کی مار  پیٹ سے بچایا جائے۔  مگر کبھی بھی  کوئی منصوبہ اس کی سمجھ میں نہیں  آیا۔

یہ سب کچھ عرصے تک جاری رہا، گدھا کمزور اور بوڑھا ہو گیا۔ تاجوُ  خود  بھی اپنے گدھے کی طرح بوڑھا اورکمزور  ہو گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دھوبی شہر سے اتنے  زیادہ کپڑوں کی گٹھڑیاں جمع کرکے دھونے کے لئے نہیں لا سکتا تھا۔ اس وجہ سےوہ اب زیادہ  غریب  ہو گیا تھا، اور اس کو اپنے گدھے کی دیکھ بھال پہلے سے زیادہ  مشکل لگتی تھی۔ اب تاجوُ  نے گدھے کو  تازہ سبز  گھاس  کی بجائے بچا کھچا کھانا دینا شروع کر دیا۔ لیکن اس کی گدھے کو  پیٹنے کی عادت نہیں بدلی۔

پھر ایسا اتفاق ہوا کہ ہارون نے اپنے پرائمری سکول کے فائنل امتحان کو اپنی جماعت میں سب سے زیادہ نمبرحاصل کرکےپاس کر لیا۔ ہیڈ ماسٹر نے اس کے سرٹیفِکیٹ کے ساتھ  اسے ایک خاص انعام بھی دیا، ہارون گاوُ ں بھر میں بہت مشہور ہو

گیا ۔اس کے والدین انتہائی خوش ہوئےاور اپنے بیٹے کی کامیابی پر ناز کرنے لگے۔ اس کی محنت اور کامیابی کی خوشی مناتے ہوئے ہارون کے والدین نے اس سےوعدہ کیا ،  کہ وہ اسے اس کی مرضی کی جو  چیز بھی وہ پسند کرے گا ، اسے وہی  تحفے میں خرید کر دیں گے۔

اسی رات کو جب وہ چھوٹا سا لڑکا اپنے کمرے میں سونے کے لئے گیا، اس کے کمرے کی کھڑکی کھلی تھی اور اسے اس بچارے گدھے کی غمزدہ آواز تھوڑے فاصلے سے سنائی دے رہی تھی ’ ڈھیں  ہوں  ،  ڈھیں  ہوں ‘  ۔ ہارون نے اسی وقت فیصلہ کر لیا کہ وہ اپنے والد سے تاجوُ کاگدھا خریدنے کے لئے کہے گا۔ اسے یقین تھا کہ اس کے اباّ جان اس سے تعاون کریں گے مگر اسے ڈر تھا کہ بوڑھا  تاجوُ شاید نہ مانے۔

دوسرے دن جب ہارون نے درخواست کی کہ کیا وہ  تاجوُ کا گدھا خرید سکتا ہے؟ تو اس کے والد اس کی غیر متوقع درخواست پر بہت حیران ہوئے۔ انہوں نے کہا    ’بیٹے ! تاجوُ کے گدھے میں کیا خاص بات ہے؟  تم کوئی دوسرا  جانور بھی پال سکتے ہو‘۔  لیکن ہارون نے کہا ’ نہیں اباّ جان!  میں تاجو کا گدھا ہی حاصل کرنا بہتر سمجھتا ہوں ‘ ۔ تب اس چھوٹے سےلڑکے نے اپنے والد کے سامنے  تمام کہانی بیان کی کہ کس طرح  تاجوُ   اپنے گدھے کو  ایک لمبی چھڑی سے مارتا ہے اور کس طرح وہ اپنے گدھے سے کپڑوں کی بھاری  گٹھڑیاں اٹھواتا ہے اور اسےکھانے کے لئے تازہ گھاس کی بجائے بچا کھچا کھانا اسکے آگے ڈال دیتا ہے۔ ہارون نےاپنے والد کو وضاحت کرکے بتایا کہ کس طرح وہ  عرصے سے بچارے گدھے  کو اس سخت ظلم سے  بچانے کی خواہش رکھے ہوئے تھا۔ اس کی داستان سننے کے بعد اس کے والد اپنے بیٹے کے لئے اس بوڑھے گدھے کو خریدنے  پر راضی ہو گئے۔

اس طرح دوسرے روز صبح ہارون اور اس کے والد تاجوُ سے ملنے گئے اور انہوں نے دھوبی سے پوچھا کہ کیا وہ اس کا گدھا خرید سکتے ہیں؟ تاجوُ  کو اس درخواست پر بہت تعجبّ  ہوا ، تب وہ سوچنے لگا کہ اس کا گدھا  کتنا بوڑھا اور کمزور ہو  چکا ہے، اور اسےکھلانا پلانا اور اس کی دیکھ بھال کرنا اب کافی مشکل ہو گیا تھا۔ پھر تاجوُ  اچھی قیمت حاصل کرنے کے لئے کچھ دیر  بحث کرنے کے بعد اپنے بوڑھے گدھے کو باپ بیٹے کے ہاتھ  بیچنے  پر راضی ہو گیا۔

ہارون اور اباّ جان گدھے کو اپنے ساتھ ہی گھر لے آئے اور اسے اپنے گھر کے پیچھے بہت بڑے صحن میں آزاد چھوڑ دیا۔انہوں نے بوڑھے گدھے کو

کھانے کیلئے تازہ گھاس بھی دی۔اور  انہوں نے وعدہ کیا  کہ آیئندہ  اسے کبھی بھی کپڑوں کی بھاری گٹھڑیاں نہیں اٹھانی پڑیں گی، اور نہ ہی کسی لمبی چھڑی سے مار کھانی پڑے گی۔

ہارون نے ہمیشہ گدھے کی دیکھ بھال کی پوری کوشش کی، اور باوجود اس کے کہ وہ گدھا بہت ہی بوڑھا تھا  مگر وہ جلد ہی طاقتور اور صحت مند ہو گیا۔ وہ چھوٹا سا لڑکا بہت خوش تھا کیوں کہ وہ یہ دیکھ سکتا تھا کہ گدھا اپنے نئے گھر میں کتنا خوش تھا ۔اور اب ہارون کو کبھی بھی اس کی وہ انتہائی غمزدہ  آواز یں نہیں سننا پڑیں گی۔  کبھی ںہیں

چیونٹی اور ہاتھی

0

مہابس دو ٹیموں کے درمیان کھیلا جانے والا کھیل ہے۔ ایک ٹیم کمبل کے نیچے اپنا ہاتھوں کو رکھتی ہے ٹیم کے ساتھیوں کی ہتھیلیوں میں ایک انگوٹھی کو چھپاتی ہے۔ پھر وہ دوسری ٹیم کو اپنی بند مٹھی دکھاتے ہیں۔ دوسری ٹیم کو اندازہ لگانا ہوتا ہے کہ انگوٹھی کس ہاتھ میں چھپی ہوئی ہے۔

ایک چیونٹی اور ایک ہاتھی بہت اچھے دوست تھے اور جب بھی موقع ملتا دونوں ساتھ مل کر کھیلتے تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ، ہاتھی کے والدبہت سخت قسم کے تھے اور انہیں ہوم ورک کرنے یا اس کی والدہ کو چھوٹے چھوٹے کام میں مدد کی ضرورت ہونے کے وقت اپنے بیٹے کا کھیلنا پسند نہیں تھا۔

۔ اور انہیں پسند نہیں تھا کہ ان کا بیٹا اپنے دوست چیونٹی کے ساتھ کھیلے جب کہ اسے دوسرے ہاتھیوں کے ساتھ کھیلنے پر ناز ہونا چاہئے۔

چھوٹا ہاتھی اپنے والد سے کافی ڈرا ہوا تھا اور ان کا غصہ ہونا اسے بالکل بھی پسند نہیں تھا۔ لیکن چیونٹی بہت بہادر چیونٹی تھی اور تندمزاج بزرگ والد سے خوفزدہ نہیں تھی۔

ایک دن، دونوں دوست مہابس کا کھیل رہے تھے کہ تبھی انہیں غصہ میں بھرے ہوئے والد کے آنے کی آہٹ سنائی دی۔ زمین دھمک سے ہل رہی تھی اور وہ درختوں کو توڑتا پھوڑتا آرہا تھا۔

‘ارے نہیں، یہ میرے والد ہیں!’ نوجوان ہاتھی چلایا، اس کے چہرے پر خوف چھا گيا۔ ‘میں کیا کرسکتا ہوں؟

چھوٹی چیوٹی نے اپنی چھاتی پھلائی اور اپنے پورے قد سے کھڑی ہوگئی۔ ‘فکر نہ کرو، میرے دوست، تم میرے

پیچھے چھپ سکتے ہو اور تمہارے والد تمہیں تلاش نہیں کرسکیں گے!’

دفن کئے ہوئے خزانے کا معمہّ

0

ایک دفعہ کاذکر ہے، کہ ایک نہایت محنتی کسان جس کا نام رحیم تھا ، ایک ذرعی گاؤں میں رہتا تھا جو کہ پاکستان کے ذرخیز صوبہ پنج میں واقع تھا۔رحیم کے چار بیٹے تھے۔ انکے نام تھے اکبر، اصغر، ناصر اور بابر جو کہ چارو ں میں سب سے چھوٹا تھا۔

یہ چاروں بھائی دوسرے سب ان بچوّں سےبہت مختلف تھے جو کہ قریبی دیہی علاقوں میں ر ہتے تھے ، کیوں کہ یہ چاروں اپنا زیادہ تروقت کھیلنے اور شرارتیں کرنے میں گزارتے تھے۔ جب ہمسائے میں رہنے والے لوگ ان بھائیوں کی شرارتوں سے تنگ آ جاتے تو وہ رحیم سے ان کی شکایت کرتے،تب وہ سب شرارتی بھائی بھولے بھالے بن جاتے اور وعدے پر قائم رہنے کا ارادہ کئے بغیر ہمسایوں سے معافی بھی مانگ لیتے۔

گاؤں میں ایک پرائمری سکول تھا۔ رحیم نے اپنے چاروں بیٹوں کو وہاں اس امید میں داخل کرا دیا کہ ان کے اندر کوئی نظم و ضبط قائم ہوگا۔ مگریہ سب بھائی روزانہ سکول بہت دیر سے جاتے۔ اور استاد خواہ کتنی دفعہ ڈانٹ ڈپٹ کرتے ،مگر وہ اپنے طور طریقے نہ بدلتے۔

رحیم بہت ہی رحم دل انسان تھااور اس نے کبھی اپنے بیٹوں کے ساتھ سخت کلامی نہیں کی ، بلکہ وہ ان کے پاس بیٹھ جاتا اور ان کو دلائل دے کر سمجھانے کی کوشش کرتا ۔ ’ پیارے بیٹو ! ‘ رحم دل والد نے ایک دن بہت پیار سے کہا۔ ’تم لوگ ابھی بہت کمسن ہو، اور اپنا تمام وقت کھیل کود میں گزارتے ہو۔ لیکن اگر تم نے اس عمر میں محنت کرنا نہ سیکھا تو جب تم لوگ بڑے ہو جاؤگے تو کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں ہو گے ‘ ۔ سب بیٹے یک زبان ہو کر بڑے جوش سے کہتے ۔ ’ ابا جان ! آپ بالکل فکر نہ کریں ہم بہت جلد سب کچھ سیکھ لیں گے، ہم وعدہ کرتے ہیں ‘۔

لیکن جیسے ہی ان کے والد انہیں ایک اور موقعہ دینے کے لئے راضی ہو تے تو چاروں بھائی اپنا وعدہ فوراً بھول جاتے۔ اور جلد ہی اپنے پرانے طور طریقوں پر اتر آتے،اور وہ جدھر بھی نکل جاتے شرارتیں کرتے ،تباہی اور بربادی ڈھاتے نظر آتے۔ اگر کوئی ان سے کوئی کام کرنے کے لئے کہتا تو وہ سب طرح طرح کے بہانے بنا دیتے ، جب کہ در اصل یہ چاروں بھائی نہایت سست اور کاہل تھے۔

پھر اسی طرح دن، مہینے اور سال گزر گئے اور یہ چاروں بڑھ کر جوان ہو گئے ۔ انہوں نے پڑھنا لکھنا بالکل نہ سیکھا اور نہ ہی انہوں نے کھیت پر کوئی کام والد کی مدد کے لئے کیا۔ وہ ہمیشہ ایک دوسرے کو اپنی من گھڑت فضول باتوں اور مشکلات کے لئے الزام دیتے رہتے۔ اور ان میں سے کسی ایک نے بھی، کبھی ایک دفعہ بھی اپنے برے طور طریقے کے لئےاپنی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

آخر رحیم ایک ضعیف اور بوڑھا آدمی ہو گیا مگر وہ پھر بھی کھیت پر سارا دن خود اکیلا ہی کام کرنے پر مجبور تھا۔ یہ کام ایک بوڑھے آدمی کے لئے بہت محنت کا تھا ، اور رحیم کو وہ دن بہت مشکل لگنے لگےتھے۔

فصل کی پیداوار میں بھی کمی آ گئی اور اس کے ساتھ ہی اس دولت میں بھی جو کہ وہ فصل کو منڈی میں بیچ کر حاصل کر سکتا تھا۔ رحیم اور اس کی بیوی اپنے مستقبل کے بارے میں بہت پریشان تھے، مگر وہ چاروں بھائی ان واقعات کےبارے میں بالکل بھی پریشان نہ ہوتے تھے۔ کبھی کبھار وہ کھیت میں اپنے والد کی مدد کرنے چلے جاتے،لیکن زیادہ تر اپنے بچاؤ کی خاطر بہانے بناتے رہتے۔وہ تمام دن صرف نکمےّ بیٹھے رہتے، کھاتے پیتے اور آرام سے سوتے۔

اگرکبھی کوئی اکبر سے کہتا کہ وہ کھیت پر جا کر اپنے والد کی مدد کرے،تو وہ کہتا کہ ’ دوسرے تینوں میں سے کوئی جا کر مدد کرے کیوں کہ میرے تو سر میں درد ہے‘ وغیرہ، وغیرہ ۔اسی طرح ہر ایک بھائی کو جب بھی کوئی کسی کام کرنے کو کہتا تو وہ اسی قسم کا بہانہ بنا دیتا، اور ان میں سے ہر ایک اپنے دوسرے بھائیوں میں سے کسی ایک کو وہ کام کرنے کے لئے پیش کر دیتا۔

پھر ایک وقت ایسا آیا کہ رحیم واقعی اس قدر ضعیف اور بیمار ہو گیا کہ کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہا ، اور اس نے حقیقت میں یہ محسوس کیا کہ وہ زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکے گا۔ رحمدل باپ اپنے ناکارہ بیٹوں کے بارے میں بہت فکر مند ہو گیا، اور اس کے دماغ کو بہت سے مشکل سوالات نے گھیر لیا۔ اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ جب وہ نہیں ہو گا تو ان کا کیا ہو گا؟ انہوں نے کوئی ہنر نہیں سیکھا تھا اس لئے وہ اپنے لئے روزی کیسےمہیاّ کر سکیں گے؟ ان کے برے اعمال کے باوجود رحیم اپنے بیٹوں کو دل سے چاہتا تھا اور ان کی مدد کرنا چاہتا تھا۔ اس لئے وہ بچارہ ضعیف آدمی بہت ہی غور سے یہ سوچنے لگا کہ کیا کیا جائے؟

بہت دیر غور کرنے کے بعد رحیم کو ایک منصوبہ سمجھ میں آیاجس کے بارے میں اس نے خیال کیا کہ شاید وہ کار آمد ہو سکے، پھر وہ خود بخود مسکرایا اور اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ وہ اس کے چاروں بیٹوں کو بلا کر لائے تا کہ وہ اس کے سامنے آ کر بیٹھیں۔ اور اس سے پہلے کہ وہ قبر میں جا سوئے، انہیں اپنی وصیتّ سنائے اور نصیحت کے چند الفاظ بھی کہہ سکے۔ رحیم کی بیوی یہ سن کر بہت پریشان ہو گئی کیونکہ وہ اپنے خاوند کو بہت چاہتی تھی۔ بہر حال اس نے اپنے بیٹوں کو بلایا اور انہیں ان کے والد کی خواہش کے بارے میں بتایا۔ چاروں بھائیوں کو اس بات کا بہت صدمہ ہوا کہ ان کا باپ فوت ہو جائے گا۔ وہ اپنے والد کے قدموں کے پاس اس کی آخری وصیتّ سننے کے لئے بیٹھتے ہی رونے اور آہ و زاری کرنے لگے۔

’ پیارے بیٹو ! ‘ رحمدل باپ نے کہا ۔ ’ میں نے زندگی بھر تم سے محبت کی اور تمہاری دیکھ بھال کی ۔ میں نےواقعی پوری کوشش کی کہ تم خوشی اور آرام و آسائش سے رہو اور میں تمہاری حفاظت کرتا رہا ، لیکن اب میں بوڑھا اور بیمار ہوں اور جانتا ہوں کہ میں جلد ہی مر جاؤں گا ‘۔ بوڑھا پھرکھانسنے لگا، اسکی سانس میں خرخراہٹ تھی ۔ اوراب چاروں بھائی خود دیکھ سکتے تھے کہ ان کا باپ حقیقت میں بہت بیمار تھا۔ ’ لیکن میں نے ایک بہت بڑا خزانہ تم لوگوں کے لئے بچا رکھا ہے‘۔ رحیم نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا۔’ تا کہ تمہاری زندگی میرے جانے کے بہت عرصے بعد تک بھی آرام سے گزرتی رہے‘۔

’بہت زمانہ گزرا ، میں نے اپنے کھیت کی زمین میں کسی جگہ ایک بہت بڑا اور بہت گہرا گڑھا کھودا۔ پھر میں نے اس گڑھے میں اس خزانے کو اس وقت کے لئے کہ جب تمہیں اس کی ضرورت پڑے،حفاظت کے ساتھ دفن کر دیا۔ لیکن اب مجھے بالکل یاد نہیں رہا کہ وہ کس جگہ پر ہے‘۔

چاروں بھائی ایک دوسرے کی طرف تعجب سے دیکھنے لگے، لیکن وہ اپنے باپ کے خزانے کے تصوّر سے کافی خوش بھی نظر آ رہے تھے۔

’میرے مرنے کے بعد تمہیں اس کا سراغ لگانا ہوگا اور اسے کھود کر نکالنا ہوگا ‘۔ رحیم نے بات جاری رکھی ۔’ پھر تم اپنے چچا سے جو کہ اس وقت خاندان میں سب سے بڑے ہوں گے، درخواست کرنا کہ وہ اس خزانے کو تم چاروں کے درمیان برابر حصوّں میں تقسیم کر دیں۔ اس کے لئے آ پس میں جھگڑے مت کرنا، اپنے چچا کے فیصلے کی تعظیم کرنا۔ یاد رکھو کہ اپنے بڑوں کی عزّت کرنا ہماری تہذ یب کا ایک اہم حصہّ ہے۔ تمہیں ان کی عزّت کرنے کو اپنا فرض سمجھنا چاہیئے‘۔

چاروں بھائی کھیت میں دفن کئے ہوئے خزانے کو فوراً ہی ڈھونڈ نے کے لئے مضطرب نظر آنے لگے۔ رحیم نے یہ ظاہر کیا کہ اس نے اپنے بیٹوں کے اس روّیئے کو دیکھا ہی نہیں، اور اس نے اپنی تقریر جاری رکھی۔

’ ایک اور نصیحت جو کہ میں تمہیں د ینی چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ تم لوگ ایک دوسرے کے ساتھ کبھی مت لڑنا، تمہارے دشمن تمہیں منصوبہ بندی اور ساز باز کرنے کے لئے اکسائیں گے ،لیکن کچھ بھی ہو جائے تم چاروں ہمیشہ متحد رہنا۔ مل جل کر تم سب بہت طاقت ور رہوگے اور کوئی بھی تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ اور کسی کو بھی اس خزانے کے بارے میں اس وقت تک مت بتانا جب تک تمہیں وہ مل نہ جائے‘۔

جب رحیم نے اپنی تقریر ختم کی تو اس نے آ نکھیں بند کر لیں،پھر وہ جلد ہی فوت ہو گیا۔اپنے والد کے جنازے اور تدفین کے بعد ان بھائیوں نے اپنے کھیت کے دوسرے سرے سے کھودنے کا فیصلہ کیا۔انہوں نے اب تک اپنی زندگی بہت سستی، کاہلی ، آرام اور آ سائش میں گزاری تھی اس لئے کھیت کےتھوڑے سے حصےّ کو کھودنابھی ان کو بہت مشکل لگا۔ سست اور کاہل سب بھائی جلد ہی ہار کر گھر پر آرام کرنے کے لئے چل دیئے۔

اگلے دن پھر ایسا ہی کیا۔پھر اس سے اگلے دن، اور اس سے بھی اگلے دن ایسے ہی کرتے رہے، یہاں تک کہ آہستہ آہستہ مگر یقیناً کھیت کا زیادہ تر حصہّ بھائیوں نے کھود ہی لیا۔ ان کو اسی طرح کام کرتے مہینہ بھر اورگزر گیا مگر انہیں دفن کیا ہوا خزانہ

نہیں ملا۔ وہ کسی اور سے اس کا ذکر بھی نہیں کرنا چاہتے تھے اور نہ ہی کسی کی مدد لینا چاہتے تھے، کیوں کہ وہ اس خزانے میں کسی اور کو حصہ دار نہیں بنانا چاہتے تھے۔ وہ سب کھدائی کرتے کرتے بہت تھک گئے تھے مگر ان میں سے کوئی بھی اس خزانے کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔

آخر کار بھائیوں نے غور کیا کہ انہوں نے پورا کھیت کھود ڈالا لیکن خزانے کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ تب انہوں نے خیال کیا کہ ان کے باپ نے خزانہ بہت ہی گہرا دفن کیا ہو گا۔ اس لئے انہوں نے اور بھی زیادہ گہراکھودنے کا فیصلہ کر لیا ۔ ایک اور مہینہ گزر گیا مگر دفن کئے ہوئے خزانے کا کوئی نشان بھی نہیں تھا!

سارا کھیت اب پوری طرح نیچے سے اوپر ہو چکا تھا اور ہمسائے بھی ان بھائیوں کی محنت پر رشک کرنے لگے تھے۔

آخر کار چاروں بھائیوں نے دفن کئے ہوئے خزانے کو کبھی بھی پا لینے کے خیال کو ترک کر دیا۔ مگر یہ دیکھ کر کہ انہوں نے کھیت کو اتنی اچھی طرح تیار کر لیا تھا ، اس لئے انہوں نے وہاں پر اس موسم میں گیہوں کی کاشت کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ جب فصل کاٹنےکا زمانہ آیا تو اس کھیت میں بہت اعلیٰ درجے کا اور بہت مقدار میں گندم پیدا ہوا، جس کو وہ سب بھائی منڈی میں لے گئے اور اسے ہزاروں روپوں میں فروخت کر دیا۔

اپنےوالد کی نصیحت پر چلتے ہوئے سب بھائی اپنی کمائی ہوئی دولت کو اپنے چچا کے پاس لے گئےاور ان سے اس رقم کو چاروں میں برابر تقسیم کرنے کی درخواست کی۔ ان کے چچا چاروں بھائیوں پر فخر کرنے لگے اور بولے ، ’ شاباش ! میرے بھتیجو ! تم نے آخر کار یہ ثابت کر دیا کہ تم میرے محنتی بھائی رحیم کے محنتی بیٹے ہو۔ یہ کھیت جو میرا بھائی تمہارے لئے چھوڑ گیا ہے وہ خود ہی ایک خزانہ ہے۔ اور اگر تم اسی طرح محنت کرتے رہوگے تو تم اس کا ہمیشہ انعام پاتے رہوگے ‘۔

اگلے سال چاروں بھائیوں نے محنت کرکے پھر گندم کی کاشت کی۔ اس دفعہ پیداوار پہلے سے بھی بڑھ کر ہوئی۔اور جب انہوں نے یہ گندم منڈی میں فروخت کی تو انہوں نے پہلے سے بہت زیادہ رقم بنائی۔

کچھ سال تک اسی طرح کام کرنے کے بعد چاروں بھائی کافی امیر ہو گئےاور اپنے کام میں بھی خوش رہنے لگے۔آخر کار یہ واضح ہو گیا کہ اکبر ، اصغر ، ناصر اور بابر نے دفن کئے ہوئے خزانے کے معمےّ کو حل کر لیا، کہ اصل خزانہ تو محنت اور ترتیبی نطام کا صلہ تھا۔چاروں بھائی اپنے والد کی ہوشیاری اور دور بینی پر فخر کرتے تھے، کیوں کہ صرف وہی تھا کہ جس نے ان کو محنت ، نظم و ضبط ، اتحاد اور اپنےبڑوں کی تعظیم کی فضیلت کا سبق دیا تھا۔

بندر اور مگرمچھ

0

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بندر ندی کے کنارے ایک درخت پر رہتا تھا۔ بندر اکیلا تھا کیونکہ اس کا کوئی دوست یا خاندان نہیں تھا لیکن وہ خوش اور مطمئن تھا۔ درخت نے اسے کھانے کے لیے کافی میٹھا جامن کا پھل دیا۔ اس نے اسے دھوپ سے سایہ اور بارش سے پناہ بھی دی۔

ایک دن ایک مگرمچھ دریا میں تیر رہا تھا۔ وہ بندر کے درخت کے نیچے آرام کرنے کے لیے کنارے پر چڑھ گیا۔

‘ہیلو،’ بندر نے پکارا، جو ایک دوستانہ برتاؤ کرنے والا جانور تھا۔

  ہیلو،‘‘ مگرمچھ نے حیران ہوتے ہوئے جواب دیا۔ ‘کیا تم جانتے ہو کہ مجھے کھانا کہاں سے مل سکتا ہے؟’ اس نے پوچھا. ‘میں نے سارا دن کچھ نہیں کھایا اور میں بھوکا ہوں۔’

اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ مگرمچھ بندر کو کھا جانا چاہے گا، لیکن یہ بڑا ہی شفیق اور شریف مگرمچھ تھا اور یہ خیال کبھی اس کے دماغ میں نہیں آیا۔

‘میرے درخت میں بہت پھل ہیں۔ کیا آپ کچھ کھانا چاہیں گے؟’ بندر نے کہا، جو خود بھی بہت مہربان تھا۔

اس نے جامن کا کچھ پھل مگرمچھ کی طرف نیچے پھینک دیا۔ مگرمچھ اتنا بھوکا تھا کہ اس نے تمام جامن کھا لیے حالانکہ مگرمچھ عام طور پر پھل نہیں کھاتے تھے۔ اسے میٹھا میٹھا پھل بہت پسند تھا اور گلابی گودے نے اس کی زبان کو جامنی بنا دیا۔

جب مگرمچھ اپنی مرضی کے مطابق کھا چکا تھا توبندر نے کہا، ‘جب بھی آپ مزید پھل چاہیں واپس آجائیں،’۔

جلد ہی مگرمچھ ہر روز بندر کے پاس آتا تھا۔ دونوں جانور اچھے دوست بن گئے۔ وہ باتیں کرتے، ایک دوسرے کو کہانیاں سناتے اور بہت سے میٹھے جامن ایک ساتھ کھاتے۔

ایک دن مگرمچھ نے بندر کو اپنی بیوی اور خاندان کے بارے میں بتایا۔

بندر نے کہا، ‘آج واپس جاتے وقت اپنی بیوی کے لیے بھی کچھ پھل لے جانا’۔

مگرمچھ کی بیوی کو جامن بہت پسند آئے ۔ اس نے پہلے کبھی اتنی میٹھی چیز نہیں کھائی تھی لیکن وہ اپنے شوہر کی طرح مہربان اور نرم مزاج نہیں تھی۔

اس نے اپنے شوہر سے کہا، ‘تصور کیجیے کہ بندر جب یہ جامن روزانہ کھاتا ہے تو اس کا ذائقہ کتنا میٹھا ہوگا’۔

مہربان مگرمچھ نے اپنی بیوی کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ بندر کو نہیں کھا سکتا۔

‘وہ میرا سب سے اچھا دوست ہے،’ اس نے کہا۔

مگرمچھ کی لالچی بیوی نہ سنتی۔ اپنے شوہر سے وہ کام کروانے کے لیے جو وہ چاہتی تھی، اس نے بیمار ہونے کا بہانہ کیا۔

‘میں مر رہی ہوں اور صرف ایک پیارے بندر کا دل ہی مجھے ٹھیک کر سکتا ہے!’ اس نے اپنے شوہر کو پکارا. ‘اگر تم مجھ سے محبت کرتے ہو تو تم اپنے دوست بندر کو پکڑو گے اور مجھے اس کا دل کھانے دو گے۔’

بیچارے مگرمچھ کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے۔ وہ اپنے دوست کو کھانا نہیں چاہتا تھا لیکن وہ اپنی بیوی کو مرنے نہیں دے سکتا تھا۔

آخر کار، اس نے فیصلہ کیا کہ اسے کیا کرنا ہے اور اگلی بار جب وہ بندر کے پاس گیا تو اس نے اس سے کہا کہ وہ اس کی بیوی سے ملنے آئے کیونکہ وہ جامن کے خوبصورت پھل کے لیے ذاتی طور پر اس کا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی۔

بندر خوش ہوا لیکن کہا کہ وہ نہیں جا سکتا کیونکہ وہ تیرنا نہیں جانتا تھا۔

‘اس کی فکر نہ کرو،’ مگرمچھ نے کہا۔ ‘میں تمہیں اپنی پیٹھ پر لے کر جاؤں گا۔’

بندر راضی ہو گیا اور مگرمچھ کی پیٹھ پر کود کر بیٹھ گیا۔

چنانچہ دونوں دوست گہرے چوڑے دریا میں چلے گئے۔

جب وہ کنارے اور جامن کے درخت سے بہت دور پہنچے تو مگرمچھ نے کہا، ‘مجھے بہت افسوس ہے لیکن میری بیوی بہت بیمار ہے اور کہتی ہے کہ بندر کا دل ہی اس کا علاج ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ  مجھے تمہیں مارنا پڑے گا، حالانکہ میں ہماری باتوں  کو یاد کروں گا۔’

بندر نے جلدی سے سوچا اور کہا پیارے دوست، مجھے تمہاری بیوی کی بیماری کا سن کر بہت افسوس ہوا۔ مجھے خوشی ہے کہ میں اس کی مدد کر سکوں گا لیکن میں نے اپنا دل جامن کے درخت میں چھوڑ دیا ہے۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ ہم واپس جا سکتے ہیں تاکہ میں اسے لا سکوں؟’

مگرمچھ نے بندر کی بات مان لی۔ وہ مڑا اور تیزی سے تیر کر جامن کے درخت کی طرف گیا۔ بندر اس کی پیٹھ سے چھلانگ لگا کر اپنے درخت کی حفاظت میں چڑھ گیا۔

‘میں نے سوچا کہ آپ میرے دوست ہیں،’ اس نے پکارا۔ ‘کیا تم نہیں جانتے کہ ہم اپنے دل کو اپنے اندر رکھتے ہیں؟ میں پھر کبھی تم پر بھروسہ نہیں کروں گا اور نہ ہی تمہیں اپنے درخت کا پھل دوں گا۔  چلے جاؤ اور واپس نہ آنا۔’

مگرمچھ نے اپنے آپ کو بہت بے وقوف محسوس کیا ۔ اس نے ایک دوست اور اچھے میٹھے پھل کی فراہمی کھو دی تھی۔ بندر نے خود کو بچا لیا تھا کیونکہ اس نے جلدی سوچ لیا تھا۔ اس دن سے اس نے پھر کبھی مگرمچھوں پر بھروسہ نہیں کیا۔

The school Bus Urdu story

0

سکول جانے والی بس

انگلینڈ کے بارے میں جوکوئن کو سب سے زیادہ پسند آنے والی چیز بس تھی۔ وہ اور اس کی ماں جوکوئن کے نئے اسکول جانے کے لیے ہر روز بس لیتے تھے۔ اسے مختلف مسافروں کو ادھر ادھر دیکھنا اچھا لگا۔

زیادہ تر نشستوں پر کام پر جانے والے لوگ بیٹھے ہوتے تھے ۔ وہ اسمارٹ کپڑے پہنے ہوئے ہوتے تھے اور بیگ اور بریف کیس اٹھائے ہوئے ہوتے تھے۔ دوسری نشستیں جوکوئن جیسے اسکول کے بچے لے لیتے تھے ۔ ان میں سے زیادہ تر بڑے اورمماثل یونیفارم پہنے ہوئے تھے۔

جوکوئن کے پسندیدہ مسافروں میں سے ایک سفید بالوں والی خاتون تھی۔ اس نے اپنے بیگ میں ایک چھوٹا بھورا کتا اٹھایا ہوا تھا ۔ خاتون نے کہا کہ کتا گھبرا گیا ہے۔ جوکوئن نے اس بات کو ہمیشہ یقینی بنانا کہ وہ اس کو آہستہ سے تھپکی دے۔

جوکوئن زیادہ انگریزی نہیں جانتا تھا، لیکن اس کی ماں کافی جانتی تھی۔ جب وہ بس پر چڑھتے تو وہ کرایہ پوچھتی۔ بس ڈرائیور ان کے ٹکٹ پرنٹ کرتا۔

ہر صبح وہ کہتی، ‘بلیک فرایئرز کے لیے دو واپسی کے ٹکٹ۔’ ۔ جب وہ بس سے اترتے، تو وہ جوکوئن کو کہتی کہ ‘بہت بہت شکریہ۔’ الفاظ غیر مانوس لگے، لیکن اسے مشق کے ساتھ ان کا تلفظ کرنے کی عادت پڑ گئی۔

جوکوئن کے اسکول میں زیادہ تر طلباء انگریزی بولنے والے تھے۔ وہ اکثر کلاس روم کے پہلو میں اکیلا بیٹھا رہتا تھا۔ اس کا استاد دوستانہ تھا، لیکن جوکوئن شرمیلا تھا۔ اس نے ایک لفظی جواب دیا اور ہاتھ نہیں اٹھایا۔ اسے انگریزی میں کچھ غلط کہنے کی فکر ہوئی۔ وہ اپنی گرامر کو ملانا یا کسی چیز کا غلط تلفظ کرنا ناپسند کرتا تھا۔ جوکوئن اپنی انگریزی بولنے سے پہلے اسے کامل کرنا چاہتا تھا، لیکن اس نے کبھی بھی مشق کرنے کا موقع حاصل نہیں کیا تھا۔

دسمبر کے شروع میں، جوکوئن کی ماں کو زکام ہو گیا ۔ اس نے اپنے آپ کو اور جوکوئن کو موٹے کپڑوں میں ملبوس کیا۔ اس نے لمبا اسکارف گلے میں لپیٹ لیا۔ جوکوئن کو پہلے ہی زکام ہو چکا تھا ، لیکن برطانوی سردیاں تلخ اور سیاہ تھیں۔

ہوا نے اس کی انگلیوں کی پوروں کو چھوا ۔ جیسے ہی وہ بس اسٹاپ پر چلے گئے، اس کی ماں کانپنے اور کھانسنے لگی ۔ جوکوئن نے اپنی ٹھنڈی انگلیاں مضبوطی سے پکڑ لیں۔

بس آ گئی، اور وہ دوسرے مسافروں کے سوار ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ جوکوئن کی ماں نے دوبارہ کھانستے ہوئے کہا، ‘جوکوئن کرایہ کے لیے پوچھو۔’

جوکوئن نے ایک گہرا سانس لیا۔ اس نے بس میں قدم رکھا اور ادھر ادھر دیکھا۔ ہمیشہ کی طرح، وہاں بہت سے لوگ تھے. وہ اپنے فون یا کتابوں میں مشغول تھے۔ بوڑھی عورت اور اس کا کتا ہی اوپر دیکھ رہے تھے۔ خاتون جوکوئن کو دیکھ کر مسکرائی۔

تھوڑے اعتماد کے ساتھ، جوکوئن نے بس ڈرائیور کی طرف دیکھا اور اپنی انتہائی شائستہ آواز میں کہا،’ بلیک فرائز کے دو ٹکٹ۔’

بس ڈرائیور نے الجھ کر اس کی طرف دیکھا،’ بلیک فرائز؟’

‘جوکوئن نے محسوس کیا کہ اس کا چہرہ سرخ ہو رہا ہے، ‘بلیک فرائز کے لیے۔ میرا اسکول بلیک فرائز میں ہے۔

‘کیا آپ کا مطلب بلیک فرایئرز ہے؟’

‘جی ہاں، ‘جوکوئن نے سر ہلایا۔

کچھ دوسرے مسافروں نے اپنے فونوں سے سر اٹھا کر اوپر دیکھا۔ وہ جوکوئن کی وجہ سے ہونے والی تاخیر سے ناراض دکھائی دے رہے تھے۔ ایک دفعہ جب جوکوئن کی والدہ نے اپنی ٹکٹوں کی ادائیگی کر لی تو اس نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اپنا چہرہ چھپا لیا۔

جوکوئن کو شرم محسوس ہوئی۔ اس نے اپنی ماں کی مدد کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ ناکام رہا۔ ناک کو بار بار ُسڑکتے ہوئے، جوکوئن باقی سفر میں فرش کی طرف دیکھتا رہا۔ جب وہ بس سے اترے، تو جوکوئن نے بس ڈرائیور کو ‘شکریہ’ نہیں کہا جیسا کہ وہ عام طور پر کرتا تھا۔ اس کی ماں کو خود ڈرائیور کا شکریہ ادا کرنا پڑا۔

باقی دن کے لیے، جوکوئن معمول سے زیادہ خاموش تھا۔ اس نے اپنے استاد سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی، حالانکہ اس نے اس کی حوصلہ افزائی کی۔ وہ خود کو بولنے پر اکسا نہیں سکتا تھا اس صورت میں کہ اس سے کوئی اور غلطی ہوجائے ۔

جب جوکوئن کی ماں نے اسے اسکول سے لیا تو وہ اس صبح سے بہتر محسوس کر رہی تھیں۔

وہ جوکوئن کو گلے لگاتے ہوئے مسکرائی،’ کیا آپ کا دن اچھا گزرا؟’

جوکوئن نے جواب نہیں دیا۔

اس کی ماں نے اس کے پاس گھٹنے ٹیک دیے اور اس کے بالوں میں آہستہ سے ہاتھ پھیرا،’ جوکوئن ، کیا ہوا؟’

‘میں اپنی انگریزی کے بارے میں سارا دن شرمیلا اور پریشان رہتا ہوں۔ میں نے آپ کی مدد کرنے کی کوشش کی، لیکن میں ایسا نہیں کر سکا۔ میں چاہتا ہوں کہ میری انگریزی کامل ہو، لیکن مجھے بولنے میں ڈر لگتا ہے۔ یہ بہت آسان ہو گا اگر انگلینڈ میں ہر کوئی ہسپانوی بولے یا کوئی ایسی چیز جو میں سمجھ سکتا ہوں۔ یہ بہت مشکل ہے. میں گھر جانا چاہتا ہوں.’

جوکوئن کی ماں نے غور سے سنا۔

جب جوکوئن اپنے آنسو پونچھنے کے لیے رکا تو اس نے کہا، ‘کوئی بات نہیں ، میرے پیارے ۔ نئی چیزیں سیکھنے میں وقت لگتا ہے۔ میں سمجھتی ہوں. تم میری مدد کرنے کے لیے اچھے لڑکے ہو۔ شکریہ۔ ‘

اس نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا، ‘تمہیں کامل ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ کوئی بھی مکمل نہیں. آپ کو بس پراعتماد ہونے کی ضرورت ہے۔’ وہ مسکرائی، ‘آپ بہت اچھا کر رہے ہیں، اور مجھے آپ پر فخر ہے۔ ہمت نہ ہارو، جوکوئن ۔

جوکوئن نے سر ہلایا۔

بس اسٹاپ پر جاتے ہوئے، اس نے اپنی ماں کی باتوں کے بارے میں سوچا اور محسوس کیا کہ وہ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ یہاں تک کہ بہترین لوگ بھی کبھی کبھی گڑبڑ کرتے ہیں اورغلطیاں کرتے ہیں۔ جوکوئن نے سوچا کہ جس چیز نے انہیں بہترین بنایا وہ یہ تھا کہ وہ اٹھے اور اگلے دن دوبارہ کوشش کی۔ اگر وہ پراعتماد ہو اور اپنا سر اونچا رکھے تو وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔

بس انہیں گھر پہنچانے کیلئے پہنچی۔ بس پھر سے بھری ہوئی تھی، اور جوکوئن نے لوگوں کو سوٹ میں، اسکول کے بچوں اور کتوں والی خواتین کو دیکھا، یہ سب ایک دوسرے سے یا اپنے فون پر بات کر رہے تھے۔ وہ اعتماد کے ساتھ بات کرتے تھے، اور اگر وہ غلطی کرتے ہیں، تو وہ اسے ہنسی میں اڑا دیں گے۔

جب وہ اپنے اسٹاپ پر پہنچے تو جوکوئن اور اس کی والدہ بس سے اترے، اور جوکوئن ایک روشن، پراعتماد انداز میں بس ڈرائیور کی طرف مڑا ‘شکریہ!’

بس ڈرائیور نے مسکرا کر شکریہ ادا کیا۔ جیسے ہی جوکوئن اور اس کی ماں گھر گئے، اس نے فیصلہ کیا کہ غلطیاں اتنی بری نہیں تھیں

Urdu Love Story of a Poor Man

0
Urdu story
Urdu story

عنوان: “کوئی امید نہیں تھی”

ایک لڑکا جس کا نام بلال تھا۔

اسماء نام کی لڑکی

بلال ایک نوجوان لڑکا تھا جو اپنے والد کے ساتھ ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتا تھا

وہ اپنے نرم دل اور مددگار طبیعت کے لیے مشہور تھے

اپنی خراب مالی حالت کے باوجود، بلال کا ہمیشہ مثبت رویہ تھا اور

اسے یقین تھا کہ ایک دن اس کے ساتھ اچھی چیزیں رونما ہوں گی۔

ایک دن بلال کی ملاقات اسماء نام کی ایک خوبصورت لڑکی سے ہوئی

جو اپنے والد کے ساتھ گاؤں آئی تھی

اسماء بلال کے مثبت رویے اور مہربان دل سے مسحور ہو گئیں

وہ جلدی سے دوست بن گئے اور ساتھ وقت گزارنے لگے۔

تاہم عاصمہ کے والد کو ان کی دوستی منظور نہیں تھی۔

اس نے سوچا کہ بلال اپنی بیٹی کےلیے اچھا نہیں ہے اور اس نے اسے دوبارہ ملنے سے منع کردیا۔

عاصمہ دل شکستہ تھی لیکن اپنے والد کی خواہش پر عمل کرتی رہی۔

دن گزرتے گئے اور بلال کے مالی حالات خراب ہوتے گئے۔

اس کے والد بیمار ہو گئے، اور ان کے پاس

اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ طبی اخراجات ادا کر سکیں۔ ایسی سنگین صورتحال میں

بلال کا مثبت رویہ ڈگمگا گیا، اور وہ امید کھو بیٹھا۔

ایک دن اسماء بلال سے ملنے آئی اور اسے اپنے والد کے منصوبے کے بارے میں بتایا

کہ اس کی شادی ایک امیر آدمی سے کر دی جائے گی۔

وہ شادی نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن اس کے والد اسے ایسا کرنے پر مجبور کررہے تھے۔

بلال نے عاصمہ کی آنکھوں میں اداسی دیکھ کر اس کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس نے عاصمہ کے والد کے پاس جا کر عاصمہ سے اپنی محبت کے بارے میں بتایا

اور اس سے شادی کے لیے ہاتھ مانگا۔

اسماء کے والد کو صدمہ ہوا

لیکن وہ بلال کی آنکھوں میں سچی محبت دیکھ سکتے تھے اور اس شرط پر

ان کی شادی کے لیے راضی ہو گئے کہ بلال خود کو اسماء کے لیے فراہم کرنے کے قابل ثابت ہوں۔

بلال نے اسے ایک چیلنج کے طور پر لیا اور سخت محنت شروع کر دی۔

اس نے لمبے گھنٹے لگائے اور ان کی مالی حالت کو بہتر بنانے کے لیے سخت محنت کی۔

آہستہ آہستہ لیکن یقینی طور پر، بلال کی محنت رنگ لائی گئی، اور

وہ اپنے والد کے طبی اخراجات کے لیے کافی رقم بچانے اور ایک نئی زندگی شروع کرنے کے قابل ہو گئے۔

اسماء اور بلال کی شادی ہوگئی، اور وہ ہمیشہ خوش و خرم رہنے لگے۔

انہوں نے ثابت کیا کہ محبت تمام رکاوٹوں کو فتح کر سکتی ہے اور عزم اور محنت سے کچھ بھی ممکن ہے۔