Home Blog Page 4

رات کو برتن صاف نہ کرنے کے کیا نقصانات ہیں

0

جواب اسلامی تعلیمات کی روشنی میں دیں گے اور آپ کو یہ بھی بتائیں گے کہ اس کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا کیا فرمان ہے اس بارے میں آپ کو آگے تفصیل سے بتایا جاۓ گا

کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے ایک عورت نے اپنے گھر کی پریشانیاں بیان کی اور فرمایا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ہمارے گھر میں کیوں بے برکتی ہوتی ہے؟ اس پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے دریافت فرمایا کہ کیا تم رات کو برتن دھو کر سوتی ہو؟ یا جوٹھے برتن اسی طرح سے چھوڑ کر سو جاتی ہو؟ تو اس عورت نے کہا میں تو رات کو برتن ویسے ہی چھوڑ کر سو جاتی ہو تو اس پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ تمہارے گھر میں پریشانیوں اور بے برکتی کی وجہ یہی ہے۔ اس لیے رات کو برتن صاف کر کے سویا کرو۔

اس بات سے معلوم ہوا کہ رات کو جوٹھے برتن نہیں چھوڑنے چاہیے۔ اور اس بارے میں سائنس کا بھی یہ کہنا ہے کہ اگر برتنوں کو زیادہ دیر کے لیے گندا چھوڑ دیا جائے تو ان میں نقصان دہ قسم کے بیکٹیریا پیدا ہو سکتے ہیں جو کہ مختلف بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں اور ظاہر سی بات ہے کہ جب برتنوں میں کھانے پینے کی اشیاء ہوں گی تو مختلف زہریلے کیڑے مکوڑوں کا بھی ان میں چلنے پھرنے کا خدشہ ہوتا ہے اس لیے بہتر ہے کہ رات کے برتن رات کو ہی دھو لیے جائیں

دوستو یہاں پر آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایسی کوئی تعلیم سامنے نہیں آئی ہیں جس میں رات کو برتن دھونے یا نہ دھونے کے بارے میں کوئی تشریح ہو لیکن رات کو سونے سے پہلے برتنوں کو ڈھانپنے کے بارے میں تاکید ملتی ہے اور اس بارے میں مختلف روایات ہیں جن میں یہ سبق ملتا ہے کہ سونے سے قبل کھانے پینے کے برتنوں کو بسم اللہ کہہ کر ڈھانپ دینا چاہیے اگر کوئی چیز نہ ملے تو کم از کم ایک لکڑی ہی سہی بسم اللہ کہہ کر اس پر رکھ دی جائے

اس لیے کہ شیطان بند دروازوں کو اور ڈھکے ہوئے برتنوں کو نہیں چھوتا ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا سبب یہ بیان فرمایا ہے کہ سال میں ایک رات ایسی آتی ہے جس میں وبا اور بلا نازل ہوتی ہے اور جس چیز کا منہ بند نہ ہو اور جو برتن ڈھکا ہوا نہ ہو اس میں یہ وبا اترتی ہے

کتنی بڑی حکمت ہے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیاری سنتوں میں اس لیے ہمیں چاہیے کہ ان سنتوں کو اپنا پکا معمول بنا لیا جائے تاکہ ہم ہر قسم کی مصیبت سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

خرگوش کا گوشت کھانا اور پالنا کیسا ہے؟

1

آج ہم ایک ایسے سوال پر بات کرنے جارہے ہیں۔ جس کے بارے میں بہت سے بہن بھائی سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ گھر کے اندر خرگوش پالنا کیسا ہے اور خرگوش کا گوشت کھانا حلال ہے یا نہیں۔ تو آج ہم آپ کو اس بارے میں تفصیل سے بتائیں گے۔

خرگوش کی بہت سی اقسام ہیں۔ کچھ اقسام کے خرگوش جسامت میں ایک چھوٹے بکری کے بچے کے برابر ہوتے ہیں۔ اس قسم کے خرگوش کو بڑے سائز کے خرگوش کہا جاتا ہے۔ ان کی افزائش بہت تیزی سے ہوتی ہے۔ خرگوش حلال جانوروں میں شمار ہوتا ہے۔ اسی لیے اس کا گوشت تقریبا ہر مذہب سے تعلق رکھنے والا استعمال کرتا ہے۔

اس کے گوشت کا رنگ لال ہوتا ہے۔ ذائقے میں لذیذ، تاثیر میں گرم اور جلد ہضم ہونے والا ہے. یاد رہے کہ خرگوش حلال جانور ہے اس حوالے سے آپ کو یہ بتاتے چلیں کہ فقہاء کے نزدیک خرگوش چونکہ گھاس اور دانہ کھاتا ہے۔ مردار یا نجاست اس کی غذا نہیں ہے نہ ہی وہ اپنے پنجوں یا پونچھ سے شکار کرتا ہے۔ اس لیے شرعی طریق پر ذبح کر کے اس کو کھانا حلال ہے۔

پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ سے خرگوش کا گوشت تناول فرمانا ثابت ہے۔ آئیے آپ کو خرگوش کے گوشت کے حلال ہونے کے حوالے سے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی بتاتے ہیں۔ تاکہ آپ کی بہتر طور پر اصلاح ہو سکے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے خرگوش کو بھگایا اور پھر سب لوگ اس کے پیچھے دوڑتے دوڑتے تھک گئے۔

تو میں نے اسے پکڑ لیا اور لے کر حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ انہوں نے اسے ذبح کیا اور اس کی سرین یا دونوں رانے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بھیج دیں۔ ان کا بیان ہے کہ کوئی شک نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں قبول کیا بہ روایت صحیح بخاری اور صحیح مسلم۔

دوستوں ان احادیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ خرگوش کا گوشت حلال ہے اور تمام اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ خرگوش حلال جانور ہے۔ اس لیے چاہیے کہ خرگوش کا گوشت استعمال کیا جائے یہ اسلامی تعلیمات کے پیش نظر حلال ہے۔ بلکہ آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ ماہرین کے مطابق خرگوش کے گوشت میں دوسرے جانوروں کے مقابلے میں پروٹین کیلشیم، وٹامنز زیادہ اور چکنائی اور سوڈیم کم پایا جاتا ہے۔ آج کل خرگوش کے بالوں سے مختلف اقسام کے ملبوسات اور دیگر اشیائے ضرورت بھی بنائی جا رہی ہیں۔

دوستو جہاں تک اس کو گھر میں پالنے کی بات ہے تو اس کو گھر میں پالا جا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ ایک حلال جانور ہے۔ اور بڑی تیزی سے اپنی نسل بڑھاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ مادہ خرگوش ایک بار میں دو سے آٹھ بچے پیدا کرتی ہے۔ زیادہ تر خرگوش کی اقسام زمین میں بل یا سرنگ بنا کر گرہوں کی شکل میں رہتے ہیں اس کے کان تقریبا دس سینٹی میٹر تک لمبے ہو سکتے ہیں اپنے لمبے کانوں کی وجہ سے یہ ہلکی سی آہٹ کو بھی سن لیتا ہے یہ تقریبا اپنے چاروں طرف دیکھ سکتا ہے اس کے اٹھائیس دانت ہوتے ہیں جو سامنے والے چار دانت چار اوپر والے اور چار نیچے والے کی صورت میں آگے پیچھے ہوتے ہیں۔

نر خرگوش کو bux اور مادہ خرگوش کو doze کہتے ہیں اور خرگوش کے بچے بغیر بالوں کے پیدا ہوتے ہیں اور ان کو کٹس کہا جاتا ہے۔ خرگوش سبز رنگ کے پتوں والے پودوں کو کھانا زیادہ تر پسند کرتے ہیں۔ ان کی سب سے پسندیدہ سبزی گاجر ہے۔ ہمارے ملک میں خرگوش کو شوق کے طور پر پالا جاتا ہے۔ اگر اس کو تجارتی پیمانے پر پالا جائے تو ایک اچھی آمدن کا ذریعہ بنے گا خرگوش کو بہت کم خوراک اور جگہ کی ضرورت ہوتی ہے۔

دوستو یاد رہے کہ دنیا میں خرگوش کی بہت سی اقسام پائی جاتی ہیں۔ خرگوش کی اقسام میں سے آپ اپنی پسند اور تجارتی پیمانے پر پالنے کے لیے ان کا انتخاب کر سکتے ہیں۔

مردوں کو جنت میں حوریں ملیں گی تو عورتوں کو کیا ملے گا؟

1

مردوں کو جنت میں حوریں ملیں گی تو عورتوں کو کیا ملے گا؟ اس کے علاوہ جنت میں کنواری فوت ہو جانے والی لڑکی کس کی بیوی بنے گی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو آج کل بہت زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے خواتیں ہی نہیں اکثر ہمارے بھائی بھی یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں انہی سوالوں کا جواب آج ہم آپ کو بتانے جارہے ہیں

نیک عورت اگر شادی شدہ ہے تو جنت میں اپنے جنتی شوہر کے ساتھ رہے گی اور شوہر کو ملنے والی حوروں کی سردار ہو گی. اور اللہ تبارک و تعالی اس عورت کو ان سب سے حسین و جمیل بنائے گا. اور وہ میاں بیوی آپس میں ٹوٹ کر محبت کرنے والے ہوں گے. اور اگر دنیا میں عورت کے معتدد شوہر ہوں. یعنی عورت نے اپنے شوہر کے انتقال یا اس کے طلاق دینے کے بعد دوسری شادی کر لی ہو یعنی اس عورت نے دو یا اس سے زیادہ شادیاں کی ہو تو وہ جنت میں اپنے کسی شوہر کے ساتھ رہے گی اس بارے میں مختلف روایات اور اقوالمجود ہیں

کہ اایسی عورت کو اختیار دیا جائے گا کہ جس کے ساتھ اس کی زیادہ موافقت ہو اس کو اختیار کر لے یا وہ عورت آخری شوہر کے ساتھ رہے گی اس بارے میں حضرت ابو زردہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا عورت کو اس کا آخری شوہر ملے گا

اسی طرح ایک اور مقام پر بیان ہوا کہ عورت اس شوہر کے ساتھ رہے گی جس نے دنیا میں اس کے ساتھ اچھے اخلاق کا برتاؤ کیا ہوگا اور وہ شوہر جس نے عورت پر ظلم کیا ہوگا اس کو تنگ کیا ہوگا وہ اس عورت سے محروم رہے گا حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کسی کے دو شوہر ہوں تو جنت میں کس کے ساتھ رہے گی

تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا اسے اختیار دیا جائے گا کہ وہ کسی بھی شوہر کے ساتھ رہ سکتی ہے اور فرمایا جس نے دنیا میں اس کے ساتھ اچھے اخلاق کا برتاؤ کیا ہو اور وہی اس کا جنت میں شوہر ہو گا اے ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا اچھے اخلاق والی دنیا اور آخرت کی بھلائی لے گی

اور اگر عورت کنواری ہو یعنی اس کا اس کی شادی سے پہلے ہی انتقال ہو گیا ہو یا شادی شدہ ہو تو ہو لیکن اس کا شوہر جنتی نہ ہو تو جنت میں جس مرد کو بھی وہ پسند کرے گی اس کے ساتھ اس کا نکاح ہو جائے گا اور اگر موجودہ لوگوں میں کسی کو بھی پسند نہ کرے تو اللہ تبارک و تعالی اس کے لیے ایک مرد جنتی پیدا فرمائیں گے

قبر کی پہلی رات

0

قبر کی پہلی رات کا منظر کیسا ہوگا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کی تلاش میں ہر دوسرا شخص نظر آتا ہے آج ہم اس سوال کا جواب آپ کے لیے اسلامی نقطۂ نظر سے لے کر حاضر ہوۓ ہیں اس کے علاوہ آپ کو یہ بھی بتائیں گے کہ آخر قبر انسان کو کیسے پکارتی ہے؟ کیا یہ پکار انسان کو سنائی دیتی ہے؟

قبر کی پکار
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو لذتوں کو ختم کرنے والی موت کو کثرت سے یاد کیا کرو۔ قبر ہر دن اپنے مردوں سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کرتی ہے۔ میں غربت اور تنہائی کا گھر ہوں۔ مٹی اور کیڑوں کا گھر ہوں۔

جب مومن کو دفن کیا جاتا ہے۔ تو قبر اسے مرحبا کہتے ہوئے خوشخبری سناتی ہے کہ میری پشت پر چلنے والوں میں تو بڑا محبوب تھا۔ آج میں تیری ہو گئی اور تو میری طرف آ گیا۔ تو اب میرے احسان کو دیکھ لے گا یہ کہہ کر قبر تا حد نگاہ کشادہ ہو جاتی ہے۔ اور جنت کا دروازہ اس کے لیے کھول دیا جاتا ہے۔ جہاں سے اس کو جنت کی تازہ ہوا آتی ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنازے میں شریک ہوئے۔ پھر فرمایا میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبر کے پاس بیٹھ گئے۔ اور فرمایا: یہ قبر ہر دن باآواز بلند کہتی ہے۔ اے آدم کی اولاد! تو کیوں مجھے بھول گیا؟

کیا تجھے یہ معلوم نہیں کہ میں تنہائی کا گھر، غربت کا گھر وحشت کا گھر، کیڑوں مکوڑوں کا گھر ہوں۔ میں بہت تنگ گھر ہوں۔ مگر اللہ جس کے لیے کشادگی کا حکم فرمائے گا اس کے لیے کشادہ ہو جاؤں گی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے قبر! تو یا تو جنت کا چمن ہے یا پھر آگ کا ایک تنور۔

حضرت ابو حجاج رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مردہ جب قبر میں رکھا جاتا ہے۔ تو قبر اس کو کہتی ہے اے ابن آدم تو ہلاک ہوا تجھے کس چیز نے مجھ سے دھوکے میں رکھا۔ کیا تجھے معلوم نہ تھا کہ میں فتنہ، تاریکی اور کیڑوں مکوڑوں کا گھر ہوں۔

تجھے کس چیز نے مجھ سے بہکا کر نڈر کر دیا اور تو میری پشت پر خوب اکڑ کر چلتا تھا۔ اگر وہ (مردہ) نیک ہوتا ہے۔ تو اس کی طرف سے قبر کو جواب دینے والے جواب دیتے ہیں۔ اے قبر تو دیکھ تو سہی اس کے اعمال کیسے ہیں۔ یہ اچھائی اختیار کرتا تھا اور برائی سے باز رہتا تھا۔

یہ سن کر قبر کہتی ہے بے شک یہ نیک تھا اب میں اس کے لیے سرسبز ہو جاتی ہوں۔ مردے کا جسم اس وقت منور ہو جاتا ہے اور اس کی روح اللہ تعالی کی طرف بھیج دی جاتی ہے۔

حضرت عبداللہ بن عبید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مردہ قبر میں بیٹھتا ہے اور ان لوگوں کے پیروں کی آواز بھی سنتا ہے۔ جو اس کے جنازے کے ساتھ قبر تک گئے ہوں۔

مردے سے اس کی قبر کہتی ہے اے ابن آدم تیری ہلاکت ہو۔ تو نے میری تنگی، بدبو اور کیڑے مکوڑوں کا خوف نہیں کیا۔ اس لیے تو نے ان چیزوں سے بچنے کے لیے تیاری نہ کی۔ بد اعمال مردے سے قبر کہتی ہے تجھے میری تاریکی میری وحشت میری تنہائی اور تنگی اور میرا غم یاد نہیں رہا۔ اس کے بعد قبر اس کو جکڑ دیتی ہے۔ جس کے بعد اس کی پسلیوں کی ہڈیاں ایک دوسرے میں پیوست ہو جاتی ہیں۔

جبکہ نیک بندے کے لیے قبر کشادہ کر دی جاتی ہے اور اس کے دائیں ایک کھڑکی کھول دی جاتی ہے۔ جہاں سے اس کو جنت کی ہوا آتی ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو قبر کے عذاب سے بچائے۔ اور ہم کو نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔

جنت اور جہنم کیسی ہوگی؟

0

مرنے کے بعد دوسری زندگی، جو ہمیشہ رہے گی۔ اس میں ہر انسان کی آخری منزل ہے جوکہ جنت ہے یا پھر جہنم۔ لیکن آخر یہ جنت اور جہنم ہے کیا؟

کم و بیش تمام مسلمانوں کے ذہینوں میں اتنا تصور موجود ہے کہ اللہ تعالی ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو آخرت میں انعام و اکرام سے نوازیں گے۔ جوکہ جنت کی صورت میں ہونگے۔ جہاں وہ عیش و آرام کی زندگی بسر کریں گے۔

جبکہ ایمان نہ لانے والوں اور برے اعمال کرنے والوں کو آخرت میں اللہ تعالی مختلف قسم کے عذاب دیں گے۔ جوکہ دوزخ کی صورت میں ہوگا۔ جہاں وہ تکلیف دہ زندگی بسر کریں گے۔

جنت

پہلے ہم اللہ کی رحمت یعنی جنت کے بارے میں قرآن و احادیث کی روشنی میں آپ کو چند تفصیلات بتاتے ہیں۔

جنت کی چوڑائی زمین اور آسمان کے برابر ہے۔ (سورہ آل عمران آیت نمبر ایک سو تینتیس)

جنت کے پھل اور بہاریں دائمی ہوں گی۔ (سورہ رعد آیت نمبر پینتیس)

جنت میں بھوک اور پیاس نہیں ہوگی۔ (سورۃ طحہ آیت نمبر ایک سو اٹھارہ)

اہل جنت سونے کے کنگن اور سبز ریشم کے لباس پہن کر تکیے دار مسندوں پر مزے کریں گے۔ (سورہ کہف آیت نمبر اکتیس)

اہل جنت عقل پر اثر انداز نہ ہونے والی سفید رنگ کی لذیذ شراب پئیں گے۔ (سورۃ صافات آیت نمبر چھیالیس – سینتالیس)

اہل جنت کے لیے ہیروں اور موتیوں جیسی شرمیلی نگاہوں والی خوبصورت بیویاں ہوں گی جنہیں اس سے پہلے کسی جن یا انسان نے چھوا تک نہیں ہو گا۔ (سورۃ رحمٰن آیت نمبر چھپن – اٹھاون)

اب چند احادیث بیان کریں گے۔
جنت میں بیماری بڑھاپا اور موت نہیں ہو گی۔ (مسلم شریف)

اگر جنتی عورت اپنے کنگن سمیت دنیا میں جھانک لے تو سورج کی روشنی کو اس طرح ختم کر دے گا۔ جس طرح سورج کی روشنی تاروں کو ختم کر دیتی ہے۔ (ترمذی شریف)

اگر جنتی خاتون دنیا میں ایک دفعہ جھانک لے تو مشرق سے مغرب کے درمیان ہر چیز کو روشن کر دے اور ساری فضا کو خوشبو سے معطر کر دے۔ (بخاری شریف)

جنت کے محلات سونے اور چاندی کی اینٹوں سے بنے ہیں۔ اس کا گارا تیز خوشبو والا مشک ہے۔ اس کے سنگریزے موتی اور یقوت کے ہیں اور اس کی مٹی زعفران کی ہے۔ (ترمذی)

جنت کے سو درجات ہیں۔ ہر درجے کے درمیان زمین و آسمان کے برابر فاصلہ ہے۔ (ترمذی)

جنت کے پھلوں کا ایک گوشہ زمین و آسمان کی ساری مخلوق کے کھانے سے بھی ختم نہیں ہوگا۔ (مسند احمد)

جنت میں ایک درخت کا سایہ اس قدر طویل ہوگا کہ اس کے سائے میں ایک گھوڑ سوار سو سال تک چلتا رہے۔ تب بھی سایہ ختم نہیں ہوگا۔ (بخاری)

جنت میں کمان برابر جگہ ساری دنیا اور دنیا بھر کی تمام نعمتوں سے زیادہ قیمتی ہے۔ (بخاری)

حوض کوثر پر سونے اور چاندی کے پیالے ہوں گے جن کی تعداد آسمان کے ستاروں کے برابر ہو گی (مسلم)

جہنم

اب اللہ پاک کے غضب و جلال یعنی جہنم کے بارے میں کچھ آیات ملاحظہ فرمائیں

جہنمیوں کے لیے آگ کے لباس کاٹے جائیں گے۔ ان کے سروں پر کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا۔ جس سے ان کی کھالیں ہی نہیں۔ بلکہ پیٹ کے اندر کے حصے تک گل جائیں گے۔ (سورہ حج آیت نمبر انیس – بیس)

جہنمیوں کے لیے آگ کا اوڑھنا اور آگ کا بچھونا ہوگا۔ (سورہ العراف آیت نمبر اکتالیس)

جہنمیوں کی گردنوں میں طوق ہاتھوں میں زنجیریں اور پاؤں میں بیڑیاں پہنا کر آگ میں گھسیٹا جائے گا۔ (سورہ حاکہ آیت نمبر تیس – اکتیس) (سورہ مومن آیت نمبر اکہتر – بہتر)

جہنمیوں کو جہنم میں آگ کے پہاڑ سعود پر چڑھا دیا جائے گا۔ (سورہ مدثر آیت نمبر سترہ)

جہنمیوں کو پینے کے لیے زخموں سے بہنے والے خون اور پیپ کا آمیزہ دیا جائے گا۔ (سورہ ابراہیم آیت نمبر سولہ)

غلیظ اور بدبودار کھولتا ہوا پانی دیا جائے گا جو منہ سے لگاتے ہی سارے چہرے کو بھون ڈالے گا۔ (سورہ کہف آیت نمبر انتیس)

بدمزہ بدبودار کڑوا اور کانٹے دار درخت جہنمیوں کو کھانے کے لیے دیا جائے گا۔ (سورة الغاشية آیت نمبر چھ)

جہنم میں جہنمیوں کو مارنے کے لیے لوہے کے غرض ہوں گے۔ (سورہ حج آیت نمبر اکیس)

جہنمیوں کو تنگ و تاری کوٹھڑیوں میں ٹھونس دیا جائے گا جہاں وہ موت کی تمنا کریں گے لیکن موت نہیں آئے گی۔ (سورہ فرقان آیت نمبر تیرہ)

جہنم کے بارے میں چند احادیث مبارکہ بھی ملاحظہ کر لیجیے۔

جہنم میں اونٹوں کے برابر سانپ ہوں گے۔ جن کے ایک مرتبہ کاٹنے سے جہنمی چالیس سال تک زہر کا اثر محسوس کرتا رہے گا۔ اور بچھوخچروں کے برابر ہوں گے۔ جن کا ایک مرتبہ کاٹنے سے جہنمی چالیس سال تک زہر محسوس کرتا رہے گا۔ (مسند احمد)

جہنمی کا ایک دانت احد پہاڑ کے برابر ہوگا۔ (مسلم)

جہنمی جہنم میں اس قدر آنسو بہائیں گے کہ ان میں کشتیاں چلائی جاسکیں گی۔ (حاکم)

جہنم میں کافر کے دو کندھوں کا درمیانی فاصلہ تیز روز سوار کی تین دن کی مسافت کے برابر ہوگا۔ (مسلم)

جہنمی کی کھال کی موٹائی بیالیس ہاتھ تقریبا تریسٹھ فٹ ہوگی۔ (ترمذی)

جہنم کو قیامت کے روز کھینچ کر آنے کے لیے چار ارب نوے کروڑ فرشتے مقرر کیے جائیں گے۔ (مسلم)

جہنم کی گہرائی اس قدر ہے کہ اس کی تہہ میں گرنے والا شخص مسلسل ستر برس تک گرتا چلا جائے گا۔ (مسلم)

جنت اور جہنم کے بارے میں قرآن اور حدیث کے حوالے سے یہ ایک مختصر سا تعارف ہے جو ہم نے پیش کیا ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو بارگاہ رحمت میں جگہ دے اور دوزخ کے عذاب سے پناہ دے۔ آمین یا رب العالمین

بسم اللہ کی برکت کا واقعہ

3

کہا جاتا ہے کہ کسی علاقے میں قحط سالی پیدا ہوگئی۔ اس قحط سالی کی لپیٹ میں نہ صرف انسان بلکہ چرند و پرند سب اس کا شکار ہوگئے۔ مویشی مالکان بے حد پریشان تھے۔اس دوران ایک مسجد کے مولوی نے جمعہ کے خطبے میں نہایت یقین کے ساتھ یہ بات بتائی کہ اللہ کا نام لے کر یعنی بسم اللہ پڑھ کر دریا کو حکم دیا جائے تو وہ بھی نافرمانی نہیں کرتا۔

خطبہ سننے والوں میں ایک چرواہا بھی مجود تھا۔ مولوی کی یہ بات اس کے دل میں اتر گئی۔ اور اس بات پر اس کا یقین کامل ہوگیا۔ اس نے واپس آ کر اپنی بکریاں کھولیں اور سیدھا دریا پر چلا گیا۔ اونچی آواز سے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھا اور دریا کو کہا وہ اپنی بکریاں چروانے کے لیے دوسرے پار جانا چاہتا ہے۔ اور اسے کہا کہ مجھے اپنے اوپر سے گزرنے دے۔

یہ کہہ کر اس نے اپنی بکریوں کو لیا اور دریا پر چلتا ہوا دریا پار کر گیا۔ دریا کے دوسری طرف کاعلاقہ گھاس سے بھرا پڑا ہوا۔ درختوں کے پتے بھی سلامت تھے۔ کیونکہ کسی کو یہاں تک آنے کی رسائی نہیں تھی۔ اس نے خوب اچھی طرح اپنی بکریوں کو سیر کروایا اور واپس لوٹ آیا۔

پھر یہ اس کا معمول بن گیا کہ وہ بکریاں پار چھوڑ کر واپس آ جاتا اور شام کو جا کر بکریاں واپس لے آتا۔ اس کی بکریوں کا وزن دگنا چوگنا ہو گیا۔ لوگ چونک گئے اور اس سے پوچھا کہ وہ اپنی بکریوں کو کیا کھلاتا ہے۔ وہ سیدھا سادھا اور صاف دل نوجوان تھا۔ اس نے صاف صاف بات بتا دی کہ جناب میں تو بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر دریا پر چل کر اپنی بکریاں دوسری طرف چروانے لے جاتا ہوں۔

یہ بات سب نے سنی مگر کسی نے اس چرواہے کی بات پر یقین نہیں کیا۔ کیونکہ یہ ناقابل یقین بات تھی۔ مگر بات ہوتے ہوتے مولوی صاحب کے پاس پہنچ گئی۔ مولوی صاحب نے اس چرواہے کو بلایا اور سارا ماجرا پوچھا۔

اس چرواہے نے مولوی صاحب کو ہی حوالہ بنا لیا کہ مولوی صاحب میں تو آپ کا شکریہ ادا کرنے والا تھا۔ آپ نے جمعہ کے خطبے میں جو نسخہ بتایا تھا کہ بسم اللہ کہہ کر دریا کو بھی حکم دو تو وہ بھی انکار نہیں کرتا۔ تو میں تو بس آپ کے نسخے پر ہی عمل کر رہا ہوں۔

مولوی صاحب حیرت سے اس کے چہرے کو دیکھتے رہے۔ مولوی صاحب نے کہا بھائی صاحب! ایسی باتیں تو ہم ہر جمعہ میں کرتے ہیں۔ فقط ان کا مقصد لوگوں کا ایمان بنانا ہوتا ہے۔ مگر بکریوں والا ڈٹا رہا کہ میں تو بس بسم اللہ کہہ کر پانی پر چلتا ہوں اور بکریوں سمیت پانی پار چلا جاتا ہوں۔

آخر کار مولوی صاحب نے صبح خود یہ تجربہ کرنے کی ٹھانی۔ جسے دیکھنے چرواہے سمیت پورا علاقہ بھی آگیا۔ مجمع زیادہ تھا۔ مولوی صاحب نے ایک دو بار سوچا کہ انکار کر دوں کہ کہیں ڈوب نہ جاؤں۔ مگر وہ جو مولوی صاحب کو کندھے پر اٹھا کر لائے تھے۔ اب بھی جوش و خروش سے اللہ اکبر کے نعرے لگا رہے تھے۔ اور مولوی صاحب کے حق میں تعریفیں کر رہے تھے۔

آخر کار مولوی صاحب نے اپنے ڈر کو دور کرنے کے لیے ایک رسہ منگوایا۔ پہلے اسے ایک درخت کے ساتھ باندھا پھر اپنی کمر کے ساتھ باندھا پھر ڈرتے ڈرتے ڈھیلا ڈھالا بسم اللہ پڑھا اور دریا پر چلنا شروع ہو گئے۔

مگر پہلا پاؤں ہی رکھا تھا کہ پانی میں گر گئے۔ مولوی صاحب ڈوبکیاں کھانے لگے اور پانی کے بہاؤ میں بہنا شروع ہو گئے۔ لوگوں نے کھینچ کھینچ کر باہر نکالا۔ مولوی صاحب کی اس حرکت نے چرواہے کو پریشان کر دیا کہ مولوی صاحب کی بسم اللہ کو یہ کیا ہو گیا ہے؟ کیونکہ اس کا یہ روز کا معمول تھا۔

اس کے اپنے یقین میں کوئی فرق نہ آیا۔ اس نے بسم اللہ کہہ کر بکریوں کو پانی کی طرف اشارہ کیا۔ اور خود ان کے پیچھے چلتا ہوا پار چھوڑ کر واپس بھی آگیا۔ لوگ اسے ولی اللہ سمجھ رہے تھے۔ اور اس کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔ مگر وہ سب سے بے نیاز, سیدھا سادہ انسان تھا۔ وہ مولوی صاحب کے پاس پہنچا اور کہا۔

مولوی صاحب میں آپکی بسم اللہ کی تعریف سے کافی پریشان تھا۔ مگر پانی پر چلتے ہوئے مجھے آپ کی بسم اللہ کی بیماری کا پتہ چل گیا۔ اس چرواہے نے درخت سے بندھی رسی کی طرف اشارہ کیا اور کہا مولوی صاحب یہ ہے۔ آپ کی بسم اللہ کی بیماری آپ کی بسم اللہ کی برکت کو یہ رسہ کھا گیا۔

آپ کو اللہ اور بسم اللہ سے زیادہ اس رسے پر بھروسہ تھا۔ لہذا اللہ نے بھی آپ کو رسی کے حوالے کر دیا۔ پھر کہنے لگا مولوی صاحب آپ بھی کمال کرتے ہو۔ میں نے آپ کے منہ سے سنا اور یقین کر لیا اور میرے اللہ نے میرے یقین کی لاج رکھ لی۔

مگر آپ نے اللہ کا کلام سنا مگر یقین نہیں کیا۔ لہذا آپ کو اللہ نے رسوا کر دیا۔ محترم عزیز دوستو یہی کچھ ہمارا حال ہے۔ ہماری نمازوں اور دعاؤں کا حال بھی یقین سے خالی ہے

بے پردہ عورت پر اللہ کا عذاب

0

جیسا کہ ہم نے اکثر سنا کرتے ہیں کہ فلاں جگہ پر فلاں شخص زندہ ہو گیا۔ اس نے مرنے کے بعد کا حال سنایا اور پھر مر گیا۔ اسی قسم کا عذاب قبر سے متعلق ایک واقعہ گلگت میں پیش آیا۔ جس کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ایک شخص قبرستان کے پاس سے گزر رہا تھا کہ اس نے کسی قبر سے یہ آواز سنی کہ مجھے نکالو میں زندہ ہوں۔ جب ایک دو مرتبہ اس نے آواز سنی تو اس نے یہ سمجھا کہ یہ میرا وہم ہے۔

لیکن جب مسلسل اس نے یہ آواز سنی تو اس کو یقین ہونے لگا۔ چنانچہ قریب میں ایک بستی تھی۔ وہ شخص اس میں آیا اور لوگوں کو اس آواز کے بارے میں بتا کر کہا کہ تم بھی چلو اور اس آواز کو سنو۔ چنانچہ کچھ لوگ اس کے ساتھ آئے۔ انہوں نے بھی یہی آواز سنی اور سب نے یقین کر لیا کہ واقعی یہ آواز قبر سے آ رہی ہے۔

اب یقین ہونے کے بعد ان لوگوں کو مسئلہ پوچھنے کی فکر ہوئی کہ پہلے علماء سے یہ مسئلہ معلوم کرو کہ قبر کھولنا جائز ہے یا نہیں۔ چنانچہ وہ لوگ محلے کی مسجد کے امام صاحب کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ اس طرح قبر سے آواز آ رہی ہے۔ اور میت یہ کہہ رہی ہے کہ مجھے قبر سے باہر نکالو میں زندہ ہوں۔

اس پر امام صاحب نے فرمایا اگر تمہیں اس کے زندہ ہونے کا یقین ہو گیا ہے تو قبر کو کھول لو اور اس کو باہر نکال لو۔ چنانچہ یہ لوگ ہمت کر کے قبرستان گئے اور جا کر قبر کھولی۔ اب جونہی تختہ ہٹایا تو دیکھا اندر ایک عورت برہنہ حالت میں بیٹھی ہوئی ہے اور اس کا کفن گل چکا ہے۔ پھر لوگوں نے کہ وہ عورت کہہ رہی ہے۔ جلدی سے میرے گھر سے میرے کپڑے لاؤ میں کپڑے پہن کر باہر نکلوں گی۔

چنانچہ یہ لوگ فورا دوڑ کر اس کے گھر گئے اور جا کر اس کے گھر والوں کو یہ واقعہ بتایا۔ اس کے کپڑے چادر وغیرہ لے کر آئے اور لا کر کے اندر پھینک دیے اس عورت نے ان کپڑوں کو پہنا اور چادر اپنے اوپر ڈالی۔ پھر تیزی سے بجلی کی طرح اپنے قبر سے نکلی اور دوڑتی ہوئی اپنے گھر کی طرف بھاگ گئی۔ گھر جا کر اس عورت نے ایک کمرے میں چھپ کر اندر سے کنڈی لگا لی۔

اب جو لوگ قبرستان آئے تھے دوڑ کر اس کے گھر پہنچے۔ ان کو وہاں جا کر معلوم ہوا کہ اس نے اپنے کمرے کے اندر سے کنڈی لگا رکھی ہے۔ ان لوگوں نے دستک دی کہ کنڈی کھولو۔ اندر سے اس عورت نے جواب دیا میں کنڈی تو کھول دوں گی لیکن کمرے کے اندر وہ شخص داخل ہو جس کے اندر مجھے دیکھنے کی تاب ہو۔ اس لیے کہ اس وقت میری حالت ایسی ہے کہ ہر آدمی مجھے دیکھ کر برداشت نہیں کر سکے گا۔

لہذا کوئی دل گردے والا شخص اندر آئے اور آ کر میری حالت دیکھے۔ اب سب لوگ اندر جانے سے ڈر رہے تھے مگر دو چار آدمی جو مضبوط دل والے تھے۔ انہوں نے کہا کہ تم کنڈی کھولو ہم اندر آئیں گے۔ اس نے کنڈی کھول دی اور کچھ لوگ اندر چلے گئے۔

لوگوں نے اندر جاکر دیکھا وہ عورت اپنے آپ کو چادر میں چھپائے بیٹھی ہوئی تھی۔ جب یہ لوگ اندر پہنچے تو اس عورت نے سب سے پہلے اپنا سر کھولا۔ ان لوگوں نے دیکھا کہ اس کے سر پر ایک بھی بال نہیں وہ بالکل خالی کھوپڑی ہے۔ نہ اس پر بال ہیں نہ کھال ہے۔ صرف خالی ہڈی ہڈی ہے۔ لوگوں نے اس سے پوچھا تیرے بال کہاں گئے؟

اس عورت نے جواب دیا کہ جب میں زندہ تھی تو ننگے سر گھر سے باہر نکلا کرتی تھی۔ پھر مرنے کے بعد جب میں قبر میں لائی گئی۔ تو فرشتوں نے میرا ایک ایک بال نوچا اور اس نوچنے کے نتیجے میں بال کے ساتھ کھال بھی نکل گئی۔ اب میرے سر پر نہ بال ہیں نہ کھال ہیں۔

اس کے بعد اس عورت نے اپنا منہ سے کپڑا ہٹایا۔ جب لوگوں نے اس کا منہ دیکھا تو اتنا خوفناک ہو چکا تھا کہ سوائے دانتوں کے کچھ نظر نہیں آیا نہ اوپر کا ہونٹ موجود تھا نہ نیچے کا ہونٹ موجود تھا۔ بلکہ بتیس کے بتیس دانت سامنے جڑے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ سوچیے اگر کسی انسان کے صرف دانت ہی دانت نظر آئے۔ تو کتنا ڈر اور خوف معلوم ہوتا ہے۔ اب ان لوگوں نے اس عورت سے پوچھا تیرے ہونٹ کہاں گئے۔

اس عورت نے جواب دیا میں اپنے ہونٹوں پر لپسٹک لگا کر نامحرم مردوں کے سامنے جایا کرتی تھی۔ اس کی سزا میں میرے ہونٹ کاٹ لیے گئے۔ اس لیے اب میرے چہرے پر ہونٹ نہیں ہیں۔

پھر اس عورت نے اپنے ہاتھ اور پیروں کی انگلیاں کھولی لوگوں نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ اور پیروں کی انگلیوں میں ایک بھی ناخن نہیں تھا۔ تمام انگلیوں کے ناخن غائب تھے۔ اس سے پوچھا تیری انگلیوں کے ناخن کہاں گئے۔ اس عورت نے جواب دیا ناخن پالش لگانے کی وجہ سے میرا ایک ایک ناخن کھینچ لیا گیا۔ چونکہ میں یہ سارے کام کر کے گھر سے باہر نکلا کرتی تھی۔ اس لیے جیسے ہی میں مرنے کے بعد قبر میں پہنچی تو میرے ساتھ یہ معاملہ کیا گیا۔ اور مجھے یہ سزا ملی کہ میرے سر کے بال بھی نوچ دیے گئے، میرے ہونٹ بھی کاٹ دیے گئے اور ناخن بھی کھینچ لیے گئے۔

اتنی باتیں کرنے کے بعد وہ بے ہوش ہو گئی اور مردہ بے جان ہو گئی جیسے لاش ہوتی ہے۔ چنانچہ ان لوگوں نے دوبارہ اس کو قبرستان میں پہنچا دیا۔

محترم خواتین و حضرات اللہ تعالی کو یہ عبرت دکھانی مقصود تھی کہ دیکھو اس عورت کا کیا انجام ہوا اور اس کو کتنا ہولناک عذاب دیا گیا۔ بے پردہ خواتین اس واقعے سے عبرت لے اور ان گناہوں سے توبہ کرے جس کی سزا بروز قیامت بہت سخت ہے

نمازی اور شیطان کا واقعہ

0

ایک شخص اندھیری رات میں فجر کی نماز پڑھنے کے لیے گھر سے نکلا۔ اندھیرے کی وجہ سے اسے ٹھوکر لگ گئی اور وہ منہ کے بل کیچڑ میں گر گیا۔ کیچڑ سے اٹھ کر وہ گھر واپس آیا اور لباس تبدیل کر کے دوبارہ مسجد کی طرف چل دیا۔

ابھی چند قدم ہی چلا تھا کہ دوبارہ اسے ٹھوکر لگی اور وہ دوبارہ کیچڑ میں گر گیا۔ کیچڑ سے اٹھ کر وہ پھر دوبارہ اپنے گھر گیا۔ لباس بدلا اور مسجد جانے کے لیے دوبارہ گھر سے نکلا۔

جیسے ہی وہ اپنے گھر سے باہر نکلا۔ تو اس کے دروازے پر اسے ایک شخص ملا۔ جو اپنے ہاتھ میں روشن چراغ تھامے ہوئے تھا۔ چراغ والا شخص چپ چاپ نمازی کے آگے مسجد کی طرف چل دیا۔ اس مرتبہ چراغ کی روشنی میں نمازی کو مسجد پہنچنے میں کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

وہ خیریت سے مسجد پہنچ گیا۔ مسجد کے دروازے پر پہنچ کر چراغ والا شخص رک گیا۔ نمازی اسے چھوڑ کر مسجد داخل ہوگیا اور نماز ادا کرنے لگا۔ نماز سے فارغ ہو کر وہ مسجد کے باہر آیا۔ تو وہ چراغ والا شخص اس کا انتظار کر رہا تھا۔

تاکہ اس نمازی کو چراغ کی روشنی میں گھر چھوڑ آئے۔ جب نمازی گھر پہنچ گیا۔ تو نمازی نے اجنبی شخص سے پوچھا: آپ کون ہے؟ اجنبی بولا سچ بتاؤں تو میں ابلیس ہوں۔ نمازی کی تو حیرت کی انتہا نہ رہی۔

اس اجنبی کی یہ بات سن کر نمازی سوچنے لگا۔ ابلیس شیطان کیسے مجھے مسجد تک چھوڑ سکتا ہے؟ اس کا کام تو لوگوں کو بہکانا ہے۔ تو اس شخص نے بڑی حیرت کے ساتھ ابلیس سے پوچھا: تجھے تو میری نماز رہ جانے پہ خوش ہونا چاہیے تھا۔

مگر تم تو چراغ کی روشنی میں مجھے مسجد تک چھوڑنے آئے۔ ابلیس نے جواب دیا کہ جب تمہیں پہلی ٹھوکر لگی۔ اور تم لباس تبدیل کرکہ مسجد کی طرف پلٹے۔ تو اللہ تعالی نے تیرے سارے گناہ معاف فرما دیے۔

جب تمہیں دوسری ٹھوکر لگی تو اللہ تعالی نے تمہارے پورے خاندان کو بخش دیا۔ جس پر مجھے فکر ہوئی کہ اگر اب تمہیں ٹھوکر لگی۔ تو اللہ تعالیٰ کہیں تمھارے اس عمل کی بدولت تمارے سارے گاؤں کی مغفرت نہ فرما دے۔

اس لیے میں چراغ لے کر آیا ہوں کہ تم بغیر گرے مسجد تک پہنچ جاؤ۔ اس شخص نے جیسے ہی یہ بات سنی۔ تو اس نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنا سر جھکا کر اللہ کا شکر ادا کیا۔ تو دوستو یہ ہے ہمارے رب کی شان۔ سبحان اللہ

مور کو جنت سے کیون نکالا گیا؟

0

مور جتنا اب خوبصورت ہے۔ اس سے کئی زیادہ جنت میں خوبصورت تھا۔ مور کی خوبصورتی پہ سبھی پرندے فدا تھے۔ لیکن ان سب خوبیوں کے باوجود مور سے ایسی کون سی خطا ہو گئی تھی؟ جس سے اللہ تبارک و تعالی نے مور کو جنت سے نکال دیا۔

اللہ تبارک و تعالی نے جب حضرت آدم علیہ السلام اور اماں ہوا کو پیدا فرمایا۔ اس کے بعد ان کو جنت میں بھیج دیا۔ وہ دونوں جنت میں بہت ہی پرسکون رہتے تھے۔ بہت ہی لذیذہ میوے پھل کھایا کرتے تھے۔ لیکن ایک اناج جس کو کھانے سے اللہ پاک نے انھیں منع فرمایا اور وہ اناج گندم تھا۔

چونکہ شیطان حضرت آدم علیہ سلام کی وجہ سے ہی جنت سے نکالا جا چکا تھا۔ اسی وجہ سے شیطان کی حضرت آدم علیہ سلام سے دشمنی ہو گئی تھی۔ شیطان یہ چاہتا تھا کہ وہ کسی بھی طرح حضرت آدم علیہ سلام کو جنت سے نکال دے اور ساتھ میں اماں حوا کو بھی جنت سے نکال دے۔

جب شیطان کو یہ خبر ہوئی کہ حضرت آدم علیہ کو تمام میوے کھانے کی اجازت ہے۔ لیکن گندم کھانے کی اجازت نہیں ہے۔ تو شیطان انتقام کی آگ دل میں لیے جنت کے دروازے کے پاس بیٹھ گیا۔ اور تین سو سال تک وہاں پر بیٹھا رہا کہ کوئی جنت کے دروازے سے باہر آئے اور شیطان اس سے بات کر سکے۔

ایک دن اچانک سے مور جنت سے باہر آگیا۔ شیطان اس کو دیکھتے ہی بہت خوش ہو گیا۔ شیطان نے پوچھا اے خوبصورت پرندے تم کون ہو؟ مور بولا میں مور ہوں۔ اب تم اپنا تعارف کرواؤ شیطان نے جواب دیا کہ میں عالم قروبیہ کا ایک فرشتہ ہوں۔ میں اللہ پاک کی عبادت سے ایک پل بھی غافل نہیں ہوں۔

میں چاہتا ہوں کہ میں جنت میں جاؤں۔ وہاں کی نعمتوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کروں۔ شیطان مور سےکہنے لگا کہ تم مجھے جنت کے اندر لے جاؤ۔ میں تمہیں تین ایسی باتیں بتاؤں گا۔ جس سے تمہیں ابدی زندگی حاصل ہو جائے گی۔ تمہیں بڑھاپا اور بیماری نہیں آئے گی۔ تم ہمیشہ جنت میں ہی رہو گے۔ شیطان کی یہ باتیں سن کر۔

لالچ میں آ کر مور نے کہا کہ مجھ میں تو اتنی طاقت نہیں ہے کہ میں تمہیں جنت کے اندر لے جاؤں۔ لیکن ایک سانپ میرا دوست ہے۔ وہ شاید تمہاری مدد سکے۔ یہ کہہ کر مور سانپ کے پاس آیا۔ اس کو ساری بات بتائی۔ سانپ بھی شیطان کی باتوں سے بہت خوش ہو گیا۔

پھر شیطان کو اپنے منہ میں چھپا کے جنت میں داخل ہو گیا۔ اور یوں شیطان اپنی چال میں کامیاب ہو گیا۔ جنت کے تمام نگہبانوں کو یہ معلوم تھا کہ شیطان یہ چال چل رہا ہے۔ اور جنت میں داخل ہو چکا ہے۔ فرشتے شیطان کو جنت سے نکالنے لگے۔

تب ہی اللہ پاک کا حکم ہوا کہ اس کو ابھی تک جنت میں ہی رہنے دیا جائے۔ وہ فرشتے اللہ تبارک و تعالی کے حکم سے رک گئے۔ شاید یہ حضرت آدم علیہ السلام کا امتحان تھا۔ شیطان حضرت آدم علیہ السلام کے پاس اور اماں حوا کے پاس جا کر اپنی محبت کا اظہار کرنے لگا۔

وہ دونوں ہی شیطان کو پہچان نہ سکے۔ کیونکہ ماضی کے مقابلے میں شیطان کی شکل تبدیل ہو چکی تھی۔ شیطان کہنے لگا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ دونوں ہمیشہ جنت میں اسی طرح زندگی گزاریں۔ ہمیشہ خوش رہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام اس کی بات بہت غور سے سننے لگے۔ شیطان نے کہا اگر آپ میری بات مان جائیں تو آپ کو جنت کی اور بھی تمام سہولتیں ملیں گی۔

حضرت آدم علیہ السلام شیطان کے بہکاوے میں آ کر کہنے لگے کہ یہ کس طرح ممکن ہے۔ شیطان کہنے لگا ایک گندم کا دانہ اگر آپ دونوں چکھ لیں۔ تو آپ کو ابدی حیا حاصل ہو جائے گی اور آپ جنت میں ہی رہیں گے۔ یہ بات سن کر حضرت آدم علیہ السلام کے دل میں رجحان پیدا ہوا۔ لیکن ان کے دل میں اللہ کی نافرمانی کا خوف غالب آ گیا۔

جبکہ اماں حوا شیطان کی باتوں میں آ گئی۔ جس پر اماں حوا نے حضرت آدم علیہ السلام کو راضی کر لیا۔ پھر اس کے بعد ان دونوں نے اس گندم کے دانے کو چکھ لیا۔ جیسے ہی گندم کا دانہ ان کے اندر گیا۔ تو دونوں کے ستر واضح ہوگئے۔ جس کے بعد دونوں اپنے اپنے ستر چھپانے لگے۔ اور خوفے خدا سے کانپنے لگے۔

اسی دوران اللہ تبارک و تعالی نے فرشتوں کو یہ حکم دیا کہ حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حوا دونوں کو زمین پر اتار دو۔ حضرت آدم علیہ السلام کو سری لنکا کے قریب نیچے زمین پہ بھیج دیا۔ جبکہ اماں حوا کو جدہ کی سرزمین پر اتارا گیا۔

جن خوبصورت پیروں سے چل کر مور شیطان کو جنت کے اندر لے کر آیا تھا۔ وہی خوبصورت پاؤں اللہ پاک نے مور سے لے لیے۔ سانپ جو اپنے منہ میں شیطان کو چھپا کر لایا تھا۔ اس کے منہ کی خوبصورت خوشبو کو چھین کر۔ اس میں زہر ڈال دیا گیا۔ پھر مور کے ساتھ ساتھ سانپ کو بھی جنت سے نکال دیا گیا۔

مہمان کا رزق ایک سچا واقعہ

0

بیان کیا جاتا ہے کہ کسی گاؤں میں ایک صاحب کا اپنی بیوی سے جھگڑا ہوگیا۔ ابھی جھگڑا ختم نہیں ہوا تھا کہ اسی اثناء میں ان کے گھر مہمان آگیا۔ خاوند نے اسے اپنی بیٹھک میں بٹھا دیا اور بیوی سے کہا کہ فلاں رشتہ د مہمان آیا ہے۔ اس کے لیے کھانا بنا لو۔

وہ غصے میں تھی۔ کہنے لگی “نہ تمہارے لیے کھانا ہے نہ تمہارے مہمان کے لیے”۔ وہ بڑا پریشان ہوا کہ لڑائی تو ہماری اپنی ہے۔ اگر رشتے دار کو اس بات کا پتا چل گیا۔ تو خواہ مخواہ خاندان میں بات ہوگی اور خواری الگ سے ہوگی۔

لہذا خاموشی سے آکر مہمان کے پاس چپ چاپ بیٹھ گیا۔ اتنے میں اسے خیال آگیا کہ چلو بیوی اگر روٹی نہیں پکاتی۔ تو سامنے والے ہمارے ہمسائے بہت ہی اچھے لوگ ہیں۔ میں انہیں ایک مہمان کا کھانا پکانے کے لئے کہہ دیتا ہوں۔

چنانچہ وہ ان کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ بیوی کی طبیعت آج کچھ خراب ہے۔ لہذا آپ ہمارے مہمان کے لیے کھانے کا انتظام کر دیں۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔

وہ مطمئن ہو کر مہمان کے پاس آ کر بیٹھ گیا کہ مہمان کو کم از کم کھانا تو مل جائے گا۔ جس سے میری عزت بھی بچ جائے گی۔ تھوڑی دیر کے بعد مہمان نے کہا کہ ذرا ٹھنڈا پانی تو لا دیجیے۔ وہ اٹھا کہ گھڑے کا ٹھنڈا پانی لاتا ہوں۔ اندر گیا تو دیکھا کہ بیوی تو زاروں قطار رو رہی ہے۔

وہ بڑا حیران ہوا اور کہنے لگا کیا بات ہے۔ اس نے پہلے سے بھی زیادہ رونا شروع کر دیا۔ کہنے لگی بس مجھے معاف کر دیں۔ اس کے خاوند نے کہا کہ بتاؤ تو سہی آخر تمہارے رونے کی وجہ کیا ہے۔ تم ایسے کیوں رو رہی ہو۔

بیوی نے کہا کہ پہلے مجھے معاف کر دیں۔ پھر میں آپ کو اپنی بات سناؤں گی۔ خیر اس نے کہہ دیا کہ جو لڑائی جھگڑا ہوا ہے میں نے وہ دل سے نکال دیا ہے اور تمہیں معاف کر دیا ہے۔

پھر وہ کہنے لگی کہ جب آپ نے آ کر مہمان کے بارے میں بتایا اور میں نے کہہ دیا کہ نہ تمہارے لیے کچھ پکے گا اور نہ ہی تمہارے مہمان کے لیے کچھ پکے گا۔ تو آپ چلے گئے۔ مگر میں نے دل میں سوچا کہ لڑائی تو میری اور آپ کی ہے اور یہ مہمان رشتہ دار ہے۔

ہمیں اس کے سامنے اپنے جھگڑے کی پول نہیں کھولنا چاہیے۔ چنانچہ میں اٹھی کہ کھانا بناتی ہوں۔ جب میں باورچی خانے میں گئی۔ تو میں نے دیکھا کہ جس بوری میں ہمارا آٹا پڑا ہوتا ہے۔ ایک سفید لباس شخص اس بوری میں سے آٹا نکال رہا ہے۔

میں یہ منظر دیکھ کر سہم سی گئی۔ وہ مجھے کہنے لگے کہ اے خاتون! پریشان نہ ہو یہ تمہارے مہمان کا حصہ تھا۔ جو تمہارے آٹے میں شامل تھا۔ اب چونکہ یہ ہمسائے کے گھر میں پکنا ہے۔ اسی لیے وہی آٹا لینے کے لیے میں یہاں آیا ہوں۔

اس واقعے سے ثابت ہوتا ہے کہ مہمان بعد میں آتا ہے۔ جبکہ اللہ تعالی اس کا رزق پہلے بھیج دیتا ہے۔ یہ واقعہ کتاب خطبات فقیر سے ماخوذ کیا گیا۔