Home Blog

motivational quotes in urdu

0

Motivational quotes are condensed expressions of wisdom that hold the remarkable power to inspire, uplift, and drive individuals towards their goals. They originate from a diverse array of sources and resonate universally, transcending cultural barriers. These quotes serve as catalysts for action, nudging individuals out of their comfort zones and prompting them to pursue their aspirations. Moreover, they offer perspective during challenging times, reminding us of the importance of resilience and perseverance. In today’s digital age, motivational quotes are easily shareable and widely accessible on social media platforms. However, it’s crucial to approach them with discernment, as not every quote will resonate with every individual. Despite their ubiquity, lasting change requires sustained effort and commitment beyond momentary inspiration. Ultimately, motivational quotes serve as guiding lights, encouraging us to navigate life’s challenges with courage, resilience, and unwavering determination.

 

for more quotes please click here

 

جب آپ اپنے خیالات کو تبدیل کرتے ہیں تو ، اپنی دنیا کو بھی تبدیل کرنا یاد رکھیں۔

Allama Iqbal Islamic Poetry

3
poetry

Allama Iqbal, a philosopher, poet, and politician in British India, is widely revered for his inspiring Islamic poetry. His works are profound and multi-faceted, often delving into themes of selfhood, spirituality, and the purpose of life. One of Iqbal’s most celebrated poems, ‘Lab Pe Aati Hai Dua Ban Ke Tamanna Meri,’ manifests the essence of prayer, imploring divine guidance and courage. His poetic works continue to inspire, imbuing readers with a deep sense of introspection and a greater understanding of their spiritual identity

 

Here are more of his poetry 

 

کیوں منتیں مانگتا ہے اوروں کے دربار سے اقبالؔ
وہ کون سا کام ہے جو ہو تا نہیں تیرے خدا سے۔

اذان تو ہو تی ہے اب مگر نہیں کو ئی موذن بلال سا
سر بسجدہ تو ہیں مومن مگر نہیں کو ئی زہراؓ کے لال سا۔

بات سجدوں کی نہیں خلوصِ دل کی ہو تی ہے اقبالؔ
ہر میخا نے میں شرابی اور ہر مسجد میں نمازی نہیں ہو تا۔

یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو تم
یوں تو سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو تم

دلوں کی عمارتوں میں کہیں بندگی نہیں
پتھروں کی مسجدوں میں خدا دھونڈتے ہیں لوگ۔

صبح کو باغ میں شبنم پڑتی ہے فقط اس لیے
کہ پتّا پتّا کرے تیرا ذکر با وضوہو کر۔

حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نو ری پے روتی ہے
بڑی مشکل سے ہو تا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔

میرے بچپن کے دن بھی کیا خو ب تھے اقبالؔ
بے نما زی بھی تھا اور بے گناہ بھی

قوتِ وشق سے ہر پست کو با لا کردے
دہر میں اسمِ محمدﷺ اجالا کردے۔

علم نے مجھ سے کہا عشق ہے دیوانہ پن
عشق نے مجھ سے کہا علم ہے تخمینِ وظن۔

کا فر ہے تو شمشیر پے کرتا بھروسہ
مو من ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی۔

ہنسی آ تی ہے مجھے حسرتِ انسان پر
گناہ کرتا ہے خود،لعنت بھیجتا ہے شیطان پر

سجدہ خالق کو بھی،ابلیس سے یا رانہ بھی
حشر میں کس سے محبت کا صلہ مانگے گا؟

داغِ سجود اگر تیری پیشانی پر ہوا تو کیا
کو ئی ایسا سجدہ بھی کر کہ زمین پر نشاں ر ہیں۔

صدقِ خلیل بھی ہے عشق ،صبرِ حسین بھی ہے عشق
معرکہ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق۔

یوں تو خدا سے مانگنے جنت گیا تھا میں
کرب و بلا کو دیکھ کر نیت بدل گئی۔

خو دی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضاکیا ہے۔

حُسن کردار سے نورِ مجسم ہو جا
کہ اِبلیس بھی تجھے دیکھے تو مسلمان ہو جائے۔

دُعا تو دل سے مانگی جاتی ہے،زبان سے نہیں
اے اقبال
قبول تو اس کی بھی ہوتی ہے جس کی زبان نہیں ہوتی۔

کافر کی یہ پہچان ہے کہ آفاق میں گُم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گُم اُس میں ہے آفاق

سجدوں کی عوض فردوس ملے یہ بات مجھے منظور نہیں
بے لوث عبادت کرتا ہوں بندہ ہوں تیرا مزدور نہیں

Love Poetry

3

‏تم سلامت رہو ہزار برس ہر برس
کے ہوں دن پچاس ہزار

‏عشق نے غالبؔ نکما کر دیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

یہ جو مہلت جسے کہے ہیں عمر
دیکھو تو انتظار سا ہے کچھ

.‏لوگ اکڑ کر ایسے جیتے ہیں
جیسے آبِ حیات پیتے ہیں

تجھی پر کچھ اے بت نہیں منحصر
جسے ہم نے پوجا خدا کر دیا

جانے کہاں بسے گی تُو
جانے کہاں رہوں گا میں

‏تتلیاں پکڑنے میں دور تک نکل جانا
کتنا اچھا لگتا ہے پھول جیسے بچوں پر

‏سو بار چمن مہکا، سو بار بہار آئی
دنیا کی وہی رونق، دل کی وہی تنہائی

موسم زرد میں ایک دل کو بچاؤں کیسے
ایسی رت میں تو گھنے پیڑ بھی جھڑ جاتے ہیں

‏وہ کہتے ہیں عشق کی وضاعت کریں
ہم کہتے ہیں فقط محبوب کی اطاعت کریں

خود میں تو سنجیدہ ہوں پر
دُنیا کے لیئے مزاق ہوں میں

‏اپنے میں مگن ہیں، سبھی کو اپنا ہی غم ہے
بے زار میں اپنوں سے، پرایوں سے ہوا ہوں

ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور
عالم میں تجھ سے لاکھ سہی تُو مگر کہاں

دل کی دعا لو
دل کی آہ نہ لو

تو میں بھی خوش ہوں کوئی اس سے جا کے کہہ دینا
اگر وہ خوش ہے مجھے بے قرار کرتے ہوئے

کہاں سے لاؤں ہر روز اک نیا دل
توڑنے والوں نے تو تماشہ بنا رکھا ہے

آتے آتے میرا نام سا رہ گیا
اس کے ہونٹوں پہ کچھ کانپتا رہ گیا

عامر نہ کر جیت کی لگن اب
جانے کب کا ہے تو ہار آیا

پھر کہی بھی پناہ نہیں ملتی
محبت جب بے پناہ ہوجائے

نہ جانےکون تھاکہاں سےآیاتھا
جو اصغرکودیوانہ بنا گیا ہے

میرا ہی نہیں، تمہارا بھی ہے یہی حال
اب بھی میرے دیدار کو ترستے تم ہو

 

30 Love quotes in Urdu

0

Love, an emotion that transcends boundaries, is beautifully expressed in the mellifluous language of Urdu. With its poetic essence and lyrical charm, Urdu has long been associated with articulating the depths of affection, desire, and passion. Let’s explore 30 exquisite love quotes in Urdu that encapsulate the essence of romance:

‏وہ ازل سے ہی مجھ میں تھا موجود
عشق نے تو صرف آگاہی دی ہے بس

‏آنکھوں سے مری اس لیے لالی نہیں جاتی
یادوں سے کوی رات کھالی نہیں جاتی

‏کر رہا تھا غم جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئ

آنکھوں سے تری زلف کا سایہ نہیں جاتا
آرام جو دیکھا ہے بھلایا نہیں جاتا

مجھ سے ملنے کو آپ آئے ہیں ؟
بیٹھیئے میں بُلا کے لاتا ہوں

مر گئے خواب سب کی آنکھوں کے
ہر طرف ہے گلہ حقیقت کا

یہ ذات تماشا بن چکی ہے
دنیا کے میلے سے تھک چکی ہے

کاش کوئی تو ایسا ہو
جو اندر سے باہر جیسا ہو

احمقانہ ہے درد بیاں کرنا
عقل ہے ضبط کی انتہا کرنا

‏رنگوں سے ڈر نہیں لگتا صاحب
رنگ بدلنے والوں سے لگتا ہے

‏کتنی زلفیں کتنے آنچل اڑے چاند کو کیا خبر
کتنا ماتم ہوا کتنے آنسو بہے چاند کو کیا خبر

‏آج یوں موسم نے دی جشن محبت کی خبر
پھوٹ کر رونے لگے ہیں ، میں محبت اور تم

‏خاموشی رات کی دیکتھا ہوں اور تجھے سوچتا ہوں
مد ہوش اکثر ہوجاتا ہوں اور تجھے سوچتا ہوں

‏اندر ایسا حبس تھا، میں نے کھول دیا دروازہ
جس نے دل سے جانا ہے وہ خاموشی سے جائے

‏خدا خود ہی سن لیتا ہے
خاموش دل کی صدا

‏مسکراتے ہوئے ملتا ہوں کسی سے جو ظفرؔ
صاف پہچان لیا جاتا ہوں رویا ہوا میں

‏مجھے تو میں بھی بُھول چُکا
کسی کو کیسے یاد ہوں میں

‏جس تار کو چھیڑیں وہی فریاد بہ لب ہے
اب ہم سے عدمؔ ساز بجایا نہیں جاتا

‏آنکھ کا اعتبار کیا کرتے
جو بھی دیکھا وہ خواب میں دیکھا

‏زندگی میری تھی لیکن اب تو
تیرے کہنے میں رہا کرتی ہے

‏کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

‏ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر

‏اداسیوں سے وابستہ ہے یہ زندگی میری وصی
خدا گواہ ہے کے پھر بھی تجھے یاد کرتے ہیں

‏کچھ ہو رہے گا عشق و ہوس میں بھی امتیاز
آیا ہے اب مزاج ترا امتحان پر

‏عشق میں جی کو صبر و تاب کہاں
اس سے آنکھیں لڑیں تو خواب کہاں

‏آگ سے خاک ہو گیے ہم
نہ جانے کہاں کہو گيے ہم

‏پاس جب تک وہ رہے درد تھما رہتا ہے
پھیلتا جاتا ہے پھر آنکھ کے کاجل کی طرح

‏جن اشکوں کی پھیکی لو کو ہم بے کار سمجھتے تھے
ان اشکوں سے کتنا روشن اک تاریک مکان ہوا

‏ہزاروں دکھ پڑیں سہنا محبت مر نہیں سکتی
ہے تم سے بس یہی کہنا محبت مر نہیں سکتی

Sad Quotes

0

مجھ سے میری وفا کا ثبوت مانگ رہے ہو
خود بےوفا ہو کے مجھ سے وفا مانگ رہے ہو

کچھ نہیں بدلہ محبّت میں یہاں
بس بےوفائی آم ہو گئی ہے

 

میری محبّت سچی ہے
اسلئے تیری یاد آتی ہے
اگر تیری بےوفائی سچی ہے
توہ اب یاد مت آنا

وہ کہتے ہے کی مجبوریاں ہے بہت
صاف لفظوں میں خود کو بےوفا نہیں کہتے

 

میرے فن کو تراشا ہے
سبھی کے نیک ارادوں نے
کسی کی بےوفائی نے
کسی کے جھوٹے وادوں نے

کیسے یقین کرے ہم تیری محبّت کا جب بکتی ہے بےوفائی تیرے ہی نام سے

اپنے تجربے کی آزمائش
کی زد تھی ورنہ
ہمکو تھا معلوم کے
تم بےوفا ہو جاؤگےے

Urdu Quotes About Life and Love

2

بہترین انسان عمل سے پہچانا جاتا ہے ورنہ
اچھی باتیں تو دیواروں پہ بھی لکھی ہوتی ہیں

انسان جب منافقت کی سڑھیاں چڑھنا شروع کردیتا ہے
تو اسے جھوٹ کی عادت ہوجاتی ہے

سچ بولنے سے انسان کو ذہنی پریشانیوں سے
نجات ملتی اور اس کا دل ہلکا ہو جاتا ہے

جس کام میں جتنی جلدی کروگے اتنی ہی دیر ہوگی
اچھے نتائج کے لیے صبروتحمل سے کام لینا ضروری ہے

محسن مجھے جس شخص نے برباد کیا ہے
معصوم ہے اتنا کہ ستم گر نہیں لگتا

بات کرتا ہے مختصر لیکن
دل کے تار چھیڑ دیتا ہے

صُورتاً کچھ بجھے بجھے چہرے
سیرتاً آفتاب ہوتے ہیں

میں اس شخص کو کیسے مناؤں گا محسن
جو مجھ سے روٹھا ہے میری محبت کے سبب

مُڑ مُڑ کے اُسے دیکھنا چاہیں میری آنکھیں
کچھ دور مجھے چھوڑنے آیا تھا جو اک شخص

جفا کی آگ تھم جائے، فخر ٹوٹے کبھی محسن
چلے آنا میرے ہو کر، میں ماضی پھر بھلا دوں گا

وہ ایک پل کو دکھائی تو دے
میں جان گنوا کے بھی اُس پل کو مختصر نہ کروں

وہ کیا گیا کہ، در ودیوار ہی گئی محسن
اک شخص لے گیا میری دنیا سمیٹ کر

اب میں خود کو بھی کم میسر ہوں
اپنی قلت کا سامنا ہے مجھے

جاؤ اپنے جیسے لوگ تلاش کرو
کیا پاؤ گے محسن سے ہر جائی میں

جب کبھی بھی ضرورت پڑی مجھے
اتفاق سے سارے اپنے مصروف تھے

اک تبسم ہزار شکوؤں کا
کتنا پیارا جواب ہوتا ہے

ہزار باتیں کہے زمانہ
میری وفا پہ یقین رکھنا

اگر حصہ ہوں تیرا
تو محسوس کر تکلیف میری

مجھ کو تو ضروری ہے ایسے
مچھلی کو پانی کی ضرورت ہو جیسے

سنو! سچی محبت
آب حیات ہوتی ہے

تیری قسم دے کر مجھے
لوگ اپنی بات منوا لیتے ہے

اس غریبی سے پناہ مانگو جو مایوس کردیتی ہے
اور اس مال سے پناہ مانگو جو مغرور کردیتا ہے

بہترین دنوں کے لئے
بُرے دنوں سے لڑنا پڑتا ہے

تین رشتے تین وقتوں میں پہچانے جاتے ہیں
اولاد بڑھاپے میں، بیوی غربت میں، دوست مصیبت میں

ان لوگوں سے محتاط رہو جوباتوں میں
مٹھاس اوردل میں زہر رکھتے ہیں

 

 

انسان ایک ایسا غافل منصوبہ ساز ہے کہ
وہ اپنی ساری پلاننگ میں کبھی اپنی موت کوشامل ہی نہیں کرتا

خود کو اخلاقی طور پرسنوارنے میں اتنا وقت
صرف کروکہ تمہیں دوسروں پہ تنقیدکرنے کی فرصت نہ ملے

گہری باتیں سمجھنے کے لئے گہرا ہونا پڑتا ہے
اور گہرا ہونے کے لئے گہری چوٹیں کھانی پڑتی ہیں

ہمیشہ اُس وقت بولیں جب آپ کے الفاظ
آپ کی خاموشی سے ذیادہ خوبصورت ہوں

حسد ایک زہر ہے جسے انسان خود پیتا ہے
اور توقع دوسرے کے مرنے کی کرتا ہے

قبرستان ایسے لوگوں سے بھرے پڑے ہیں
جو سمجھتے تھے کہ اُن کے بغیر یہ دنیا اُجڑ جائے گی

بڑا انسان وہ ہے جس کی محفل میں کوئی
خود کو چھوٹا نہ سمجھے

آپ کا ایک لفظ زخم بھی لگا سکتا ہے
اورمرہم بھی بن سکتا ہے ،اختیار آپ کے پاس ہے

عشق نہیں سوچتا کہ
معشوق کیا سوچتی ہے

بھروسہ ایک رشتے کی
سب سے مہنگی شرط ہے

وہ میرے خیالوں میں نہیں
دعاؤں میں رہتا ہے

وہ میرے خیالوں میں نہیں
دعاؤں میں رہتا ہے

میرے چہرے پہ ٹھہری
یہ ہنسی تم ہو

کوئی اس کا ہونے کا نہ سوچے
اس کے سنگ میں سجتی ہوں

علی انگوٹھا

0

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جوڑے کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جسے وہ علی کہتے تھے۔

بچہ اپنے والدین کے لیے خلاف توقع تھا، کیونکہ جب وہ پیدا ہوا تو وہ انگوٹھے سے بڑا نہیں تھا

ماں اور باپ دونوں شروع میں بہت پریشان تھے، لیکن پھر انہوں نے خود سوچا،

 ‘ یہی ہمارے لیے خدا کی دین  ہے، اور ایک دن ہمارا بیٹا بڑا، مضبوط لڑکا بنے گا۔’

لیکن سال گزرتے گئے اور علی بالکل نہیں بڑھا۔ وہ انگوٹھے کی طرح چھوٹا رہ گیا۔

ہر شام رات کے کھانے پر ماں اپنے بیٹے کے لیے میز پر جگہ رکھ دیتی۔

وہ اس کے سامنے ایک چھوٹی سی پلیٹ رکھ دیتی اور اس میں ایک چائے کا چمچ سوپ سے بھرتی۔

علی کے پاس ایک چھوٹا سا پیالہ بھی تھا جسے اس کی ماں  پانی کے ایک قطرے سے بھر دیا کرتی تھی۔

گھر والے جب گھر پر ہوتے تھے تو سب ٹھیک تھا لیکن ماں باپ اپنے بیٹے کی وجہ سے شرمندہ تھے تھی، یہ سوچ کر کہ اگر کسی نے اسے دیکھا تو وہ نوجوان لڑکے کو چھیڑیں گے۔ اس لیے انہوں نے اسے گھر کے اندر ہمیشہ نظروں سے پوشیدہ رکھا ہوا تھا۔

مزید کئی سال گزر گئے اور بالآخر علی نے اپنی بیسویں سالگرہ منائی۔

وہ ابھی بھی انگوٹھے کی طرح چھوٹا تھا، لیکن اس کی آواز بہت گہری اور بہت بلند ہو چکی تھی۔

درحقیقت اگر کبھی کوئی ان کے بیٹے کو بولتے ہوئے سنتا تو وہ سمجھتا کہ یہ کسی بڑے آدمی کی آواز ہے۔

علی ایک بہت اداس نوجوان تھا کیونکہ اس کا کوئی دوست نہیں تھا اور اسے اپنا سارا وقت اپنے والدین کے گھر کے اندر چھپ کر گزارنا پڑتا تھا۔

ایک دن علی کے والد اگلے قصبے میں بازار جانے کے لیے تیار ہو رہے تھے۔ بوڑھے آدمی نے رات ہوٹل میں گزارنے کا ارادہ کیا کیونکہ وہ رات ہونے سے پہلے وہاں  تککا اور واپسی کا سفر نہیں کر سکتے تھے۔

علی نے اپنے والد سے التجا کی کہ اسے سفر میں ساتھ لے جائیں، لیکن اس کے والد اس خیال سے بہت پریشان نظر آئے۔

اس نے کہا، ‘ہم نے آج تک آپ کو کبھی باہر نہیں نکالا اور مجھے یقین نہیں ہے کہ میں اب ایسا کر سکتا ہوں۔’ ‘میں آپ کی حفاظت کیسے کر سکتا ہوں اور آپ کو دوسرے لوگوں سے کیسے چھپا سکتا ہوں؟

‘یہ آسان ہو جائے گا،’ علی نے اپنی گہری، تیز آواز میں جواب دیا۔ ‘آپ مجھے اپنی جیب میں رکھ سکتے ہیں اور کوئی نہیں جان سکے گا کہ میں وہاں ہوں۔ آپ کپڑے میں تھوڑا سا سوراخ کر سکتے ہیں تاکہ میں سانس لے سکوں اور میں دیکھ سکوں کہ کیا ہو رہا ہے اور دنیا کے تمام نئےنظاروں سے لطف اندوز ہو سکوں۔’

علی کے والد نے محسوس کیا کہ علی گھر سے نکلنے کے خیال سے کتنا پرجوش تھا، اور اس وجہ سے اس نے اپنے اکلوتے بیٹے کو نہ کہنا ناممکن پایا۔

بوڑھے آدمی نے اپنی قمیض کی جیب میں ایک بہت چھوٹا سوراخ کیا اور علی کو اندر چڑھنے میں مدد کی۔

ماں نے سفر کے لیے تھیلے حوالے کیے اور دونوں کو بوسہ دیا اور ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ پھر علی اور اس کے والد پڑوسی شہر کے بازار کی طرف روانہ ہوئے۔

سارا دن سفر کرنے کے بعد علی اور اس کے والد سڑک کے کنارے ہوٹل پہنچے۔

والد نے کہا، ‘ہم یہاں رات کے لیے ایک کمرہ حاصل کر لیں گے، اور کل ہم گھر واپس جانے سے پہلے صبح سویرے بازار جائیں گے۔’

‘میں یقین نہیں کر سکتا کہ مجھے ہوٹل میں ٹھہرنا پڑے گا!’ علی نے کہا۔

نوجوان بہت پرجوش تھا کیونکہ اس نے اپنے سفر میں بہت کچھ دیکھا تھا اور وہ اپنے گھر کے علاوہ کہیں نہیں سویا تھا۔

علی کے والد نے ایک کمرے کے لیے ادائیگی کی اور رات کے کھانے کی تیاری کے لیے اپنا بیگ سیڑھیوں سے اوپر لے گئے۔

بوڑھے آدمی کے سامان کھولنے اور نہانے کے بعد، اور علی کو ابھی تک اپنی جیب میں چھپا کر، وہ اس امید کے ساتھ کھانے کے کمرے میں چلا گیا کہ شاید وہ اپنے چھوٹے بیٹے کے لیے بھی کچھ کھانے کا سامان لے آئے۔

پھر کچھ بہت غیر متوقع ہوا۔ جیسے ہی تمام مہمان رات کے کھانے پر بیٹھے چوروں کا ایک گروہ ہوٹل میں داخل ہوا۔

بے رحم دکھائی دینے والے مردوں نے، جو کہ تین تھے،  بندوقیں اٹھائیں اور حکم دیا کہ ہر مرد اور عورت اپنی رقم اور جو بھی قیمتی سامان ان کے پاس ہے، وہ حوالے کردیں۔

تمام مہمان بہت خوفزدہ تھے جن میں علی کے والد بھی شامل تھے، لیکن انہوں نے ایسا ہی کیا جیسا کہ انہیں کہا گیا تھا، اور اپنے بٹوے اور زیورات کو چوروں کو دینےکے لیے میزوں پر رکھنے لگے۔

اچانک کہیں سے ایک بہت تیز اور بہت گہری آواز آئی۔

‘اپنی بندوقیں نیچے کرو!’ آواز نے حکم دیا. ‘میں وہاں آ رہا ہوں اور میں تمہیں پکڑ کر پولیس کے حوالے کرنے جا رہا ہوں۔’

کوئی نہیں جانتا تھا کہ آواز کہاں سے آرہی ہے۔ چوروں نے کھانے کے کمرے کے چاروں طرف نظر دوڑائی لیکن کوئی شخص تلاش نہ کر سکے۔

پھر آواز آئی، اس بار  پہلے سے بھی اونچی آواز میں۔ ‘میں تم سے تمہاری شرارتوں کا بدلہ  لوں گا۔ میں اس بات کو یقینی بناؤں گا کہ تم کئی سال جیل میں گزارو ۔’

چونکہ چور یہ نہیں بتا سکتے تھے کہ آواز کہاں سے آرہی ہے، اس لیے انہوں نے خود کو باور کرایا کہ اس کا تعلق کسی بھوت سے ہے۔

اور اگر چوروں کو پولیس سے بھی زیادہ کسی چیز سے ڈر لگتا تھا تو وہ بھوت تھے ۔

اچانک، چور اپنی بندوقیں چھوڑ کر ہوٹل سے بھاگے اور اندھیرے میں غائب ہو گئے۔

اگرچہ مہمان خوش تھے کہ ڈاکو بھاگ گئے ہیں لیکن وہ بھی بھوتوں سے ڈر کر اپنے کمروں میں بھاگ کر چھپ جانا چاہتے تھے۔

‘فکر نہ کرو،’ علی کے والد نے کہا۔ ‘یہ کوئی بھوت نہیں ہے جو بات کر رہا ہے۔ یہ میرا بیٹا ہے۔’

اور اس کے ساتھ ہی بوڑھے آدمی نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا تاکہ علی اس کے ہاتھ پر چڑھ جائے۔ پھر اس نے علی کو آہستہ سے میز پر بٹھایا تاکہ تمام مہمان ہیلو کہہ سکیں۔

‘مجھے یقین ہے کہ ڈاکو واپس نہیں آئیں گے،’ علی نے اپنی گہری، تیز آواز میں کہا، اس کے چہرے پر ان تمام مہم جوئیوں کی وجہ سے ایک بڑی مسکراہٹ تھی۔

مہمان ایک ایسے لڑکے سے ملنے کے لیے بہت حیران اور بہت متجسس تھے جو انگوٹھے سے بڑا نہیں تھا۔

لیکن سب سے بڑھ کر، وہ سب علی کے بہت شکر گزار تھے کہ اس نے انہیں چوروں سے بچا لیا، اور انہوں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اس سے ہاتھ ملایا اور اس کے والد سے کہا کہ انہیں اتنا بہادر بیٹا ملنے پر کتنا فخر ہوگا۔

صبح جب وہ بازار کے لیے ہوٹل سے نکلے تو علی کے والد نے اپنے چھوٹے بیٹے کو جیب سے نکال کر اپنے کندھے پر بٹھا لیا۔

ساری صبح بازار میں، اور پھر گھر جاتے ہوئے، بوڑھے آدمی کو راہگیروں سے علی کا تعارف کرانے کے لیے کئی بار رکنا پڑا۔ اور اس نے بہت فخر محسوس کیا اور سب کو بتایا کہ کس طرح اس کے بیٹے نے تینوں چوروں سے سب کو بچایا تھا۔

اس شام جب باپ بیٹا گھر پہنچے تو علی کی ماں بہت پریشان نظر آئیں کہ علی ان کے شوہر کے کندھے پر بیٹھا ہوا ہے۔

‘کیا ہوگا اگر کوئی اسے دیکھ لے؟’ اس نے اپنے شوہر سے پوچھا۔

لیکن بوڑھا آدمی مسکرایا اور اپنی بیوی کو سمجھایا کہ ان دونوں نے ہوٹل میں  کس مہم جوئی کا تجربہ کیا تھا، اور علی نے کس طرح سب کو بچایا اور چوروں کو ڈرایا۔

‘اپنے بیٹے سے شرمندہ ہونا بہت بڑی غلطی ہوئی ہے۔ ہمیں اتنے سالوں تک اسے گھر میں چھپا کر نہیں رکھنا چاہیے تھا۔ ہمیں علی اور ان تمام چیزوں پر فخر کرنا چاہیے جو وہ کرنے کے قابل ہے۔’

علی کی ماں کو واقعی بہت فخر ہوا جب اس نے اپنے بیٹے کی بہادری کی داستان سنی، اور وعدہ کیا کہ وہ اسے کبھی نہیں چھپائے گی یا پھر کبھی شرمندگی محسوس نہیں کرے گی۔

اس دن کے بعد سے، علی انگوٹھے نے ہمیشہ اپنے والدین کے کندھوں پر سفر کیا ہے، وہ جہاں بھی جاتے ہیں، اور اس نے بہت سے کام دیکھے اور کیے ہیں اور بہت سی مہم جوئیاں کی ہیں۔

ماں کا انتظار

2
MAA KA INTAZAR

صائمہ کے ساتھ میری ، بہت ہی خوشگوار یادیں وابستہ ہیں۔ وہ میری پیاری سہیلی تھی اس کا گھر ہمارے گھر سے چند قدم دور تھا۔ اس لئے ملاقات میں آسانی تھی ۔ اس کی ماں کو ہم آنٹی شیریں کہا کرتے تھے۔ وہ واقعی بے حد شیریں گفتار تھیں۔ مجھ سے بیٹی جیسا پیار کرتی تھیں، میں بھی ان کا ادب ماں سمجھ کر کرتی کیونکہ میری ماں بچپن ہی میں فوت ہو چکی تھیں ۔ میں ان کے پیار میں ممتا کی مٹھاس ڈھونڈا کرتی تھی۔ تب ہی اس گھرانے سے مجھے دلی لگاؤ تھا۔ صائمہ ایک اچھی لڑکی تھی۔ سب ہی اس سے پیار کرتے تھے- اس کے والد کی نوکری نزد یکی گاؤں میں تھی ۔ وہ کبھی کبھار شہر کا چکر لگاتے تھے۔ ہمارے شہر میں صرف ایک ہی کالج تھا۔ وہ دراصل بوائز کالج تھا، بعد میں لڑکیوں کو بھی داخلے کی جازت مل گئی، کیونکہ ہمارا شہر چھوٹا سا تھا اور یہاں ابھی تک لڑکیوں کے لئے علیحدہ کالج تعمیر نہیں ہوا تھا۔ صائمہ فرسٹ ایئر میں تھی اور پڑھائی میں بہت ہوشیار تھی۔ اس کو بڑی مشکل سے لڑکوں کے کالج میں داخلہ لینے کی اجازت ملی تھی، ورنہ گاؤں کے کہاں اپنی بچیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کے حق میں ہوتے ہیں۔ سب ہی اس پر رشک کرتے ، اس کی ہم جولیاں اسے خوش نصیب کہتیں کیونکہ وہ خود میٹرک کے بعد کالج جانے کی حسرت لے کر گھر بیٹھ گئی تھیں، جن میں اس کی اپنی بڑی بہن ثمرین بھی تھی، جو صرف میٹرک کر سکی تھی ، آگے پڑھنے کی اجازت نہ ملی، اس کی منگنی ہو چکی تھی اور جلد شادی ہونے والی تھی۔ ثمرین بہت خوبصورت تھی ، تب ہی آنا فانا رشتہ اور اب چند دنوں بعد شادی تھی۔ تیاریاں زور شور سے جاری تھیں، صائمہ بھی بہن کی شادی کے سلسلے کافی مصروف تھی ۔ دو دن رہ گئے تو وہ ہمارے گھر شادی کارڈ دینے آئی۔ آنٹی شیریں ساتھ آئی تھیں ۔ کہنے لگیں کہ ہم تمھیں لینے آئے ہیں۔ میری سوتیلی امی تھیں، ان سے پوچھا گیا۔ ہم بشری کو لے جائیں کیونکہ یہ شادی کے کاموں میں ہاتھ بٹائے گی ۔ امی نے انکار نہیں کیا۔ یوں میں دو دن کی چھٹی ے کر ان کے گھر چلی گئی ۔ کبھی بھی معمولی سی بات کسی بڑے سانحے کا سبب بن جاتی ہے اور زندگی کی کایا پلٹ جاتی ہے۔ اس دن کافی مہمان آئے ہوئے تھے کیونکہ شام کو بارات آنے والی تھی، ہم سب کام میں مصروف ے۔ سر کھجانے کی فرصت نہ تھی۔ اگلے روز وقت مقررہ پر بارات آگئی اور ہم لڑکیاں باراتیوں کو دیکھنے چھت پر پہنچ گئیں، میں بھی شوق دیدار میں گئی۔ بارات میں آئے ایک لڑکے پر نظر ٹہر گئی یہ خوبرو نوجوان تھا اور اس کا نام بدر منیر تھا، صائمہ کا کزن تھا۔ وہ آگے آگے تھا۔ میری نگاہیں بار بار اس کی طرف اٹھتی تھیں۔ اس نے بھی اس بات کو محسوس کر لیا اور اب وقفے وقفے سے اس کی نظریں بھی مجھے تلاش کرنے لگیں ۔ ایسا اکثر شادیوں میں ہوتا ہے کہ آپ کے دل کے کورے کاغذ پر کسی کی تصویر اچانک بن جاتی ہے، گھر آئی تو دل عجیب احساسات سے بھرا تھا۔ بار بار رہ رہ کر منیر کی صورت نگاہوں میں پھرتی تھی ، اس کا خیال آتا رہتا تھا۔ سوچتی تھی اے کاش ایک بار اور کہیں اس کو دیکھ پاؤں تو سجدہ شکر بجالاؤں۔ خدا نے دعا سن لی۔ کالج آئی تو وہ نظر آ گیا۔ وہ اسی کالج میں پڑھتا تھا لیکن کبھی میں نے اس پر دھیان نہیں دیا تھا۔ اچانک دیکھا تو دل خوشی سے دھڑکنا ہی بھول گیا۔ وہ مجھے دیکھ چکا تھا اور اب میری طرف ہی آرہا تھا۔ آپ یہاں اس نے سوال کیا … میں فرسٹ ائیر میں ہوں اور آپ؟ میں یہاں انٹرمیں پڑھتا ہوں یہاں کبھی دیکھا تو نہیں بس اتفاق ہے، دیکھا ہوگا بھی تو دھیان نہیں دیا ہوگا۔ چلئے اب تو نہیں بھولیں گی بے اختیار اس کے منہ سے نکلا تو میرے لبوں سے بھی بے اختیار ہی یہ کلمات نکل گئے . کبھی نہیں. اس دن کے بعد ہم دونوں روز ملنے لگے۔ جب فری پیریڈ ہوتا میں اور منیر کینٹین میں اکھٹے کچھ کھاتے پیتے اور باتیں کرتے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری دوستی پکی ہوتی گئی۔ وقت کیسے تیزی سے گزرتا چلا جاتا ہے۔ پتہ ہی نہیں چلتا۔ میں تھرڈ ایئر اور وہ فورتھ ایئر میں پہنچ گیا ۔ ہماری جدائی میں ایک سال سے بھی کم عرصہ رہ گیا تھا کیونکہ منیر کے کالج چھوڑتے ہی یہ دن شروع ہو جانے تھے۔ جدائی کے موسم آنے سے پہلے ہم کو کچھ ایسا قدم اٹھانا تھا کہ ہم ایک ہو جائیں لیکن اس کے لئے گھر والوں کی رضامندی ضروری تھی۔ میری تو ماں بھی سوتیلی تھیں ۔ گھر والوں کو پسند سے آگاہ کرنا گویا اپنے پیروں پر کلہاڑی مار لینے کے مترادف تھا۔ ہوتا یہ کہ امی ابو میرا کالج جانا بند کرا دیتے۔ میں گریجویشن سے محروم ہو جاتی- تب ہی پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی تھی۔ مبادا لینے کے دینے نہ پڑ جائیں، تاہم میری شدید خواہش تھی کہ منیر میرا جیون ساتھی بنے ، اس کا بھی یہی ارمان تھا بلکہ وہ تو یہاں تک کہا کرتا تھا اگر تم سے شادی نہ ہوسکی تو یقین جانو کہ میں کچھ کھا کر مرجاؤں گا، کیونکہ میں تمہاری جدائی کا صدمہ ہرگز برداشت نہیں کر سکتا۔ کالج سے آکر سب سے پہلے اسے فون کرتی کپڑے بدلتی اور کھانا کھاتی تھی۔ رات کو بھی گھنٹوں ہم فون پر باتیں کرتے، ہمارا دل باتیں کرنے سے بھرتا ہی نہیں تھا۔ ان دنوں جبکہ میرے تھر ڈایئر کے پرچے ہورہے تھے۔ ابو کے ایک رشتہ دار گاؤں سے آئے، مجھے دیکھا تو اپنے بیٹے کے لئے پسند کر لیا اور رشتے کی بات کی۔ ابو نے ہاں کر دی اور منگنی کی تاریخ بھی دے دی۔ جب یہ بات مجھے پتہ چلی تو میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ میں بہت پریشان ہوئی ۔ ناشتہ بھی نہ کیا اور کالج آتے ہی منیر کو ڈھونڈنے لگی تا کہ اپنی پریشانی سے آگاہ کروں دو پیریڈ بمشکل پڑھے، تیسرا پیریڈ خالی تھا۔ اس کا بھی خالی ہوتا تھا لہذا ہم کینٹین میں آگئے۔ میرے چہرے پر نظر پڑتے ہی پہلا سوال اس نے یہ کیا کہ بشری کیا بات ہے تم کیوں اداس ہو۔ بات میرے منہ سے نہ نکل رہی تھی۔ بڑی مشکل سے بتایا کہ اگلے ماہ منگنی ہونے والی ہے۔ والد صاحب نے رشتہ طے کر دیا ہے۔ تم کچھ کرو وہ بھی پریشان ہو گیا ۔ کہنے لگا اگر تم کہتی ہو تو اپنے والدین کو تمہارے گھر بھیج دیتا ہوں ، وہ رشتہ طلب کرنے آجائیں گے جیسے بھی ہو، میں ان کو راضی کرلوں گا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ بے مراد واپس ہوں گے، ابو کسی صورت نہیں مانیں گے۔ انہوں نے اپنے جس رشتہ دار کو زبان دے دی ہے، وہ ان کے بچپن کے دوست بھی ہیں، لہذا والد صاحب نہیں مانیں گے۔ امی سگی ہوتیں تو شاید میرے جذبات کا احساس کر کے ابو سے منوا لیتیں لیکن وہ بھی میرا ساتھ نہیں دیں گی۔ تو پھر تم ہی بتاؤ کہ آگے کیا صورت باقی رہ جاتی ا تم کیا سوچتی ہو؟ اس نے پوچھا اگر تم والدین کی پسند کو قبول کرتی ہو تو میں ہمیشہ کے لئے تمہارے رہتے سے ہٹ جاتا ہوں، پھر کبھی میں تمہاری راہ میں نہیں آؤں گا۔ میں مر تو جاؤں گی لیکن تمہارے سوا کسی اور کی دلہن بننا قبول نہیں ہے۔ میں نے روتے ہوئے قطعیت سے کہا۔ پھر تو ایک ہی راستہ ہے کہ ہم کسی بڑے شہر جا کر کورٹ میرج کر لیں اور تم گھر کو خیر باد کہہ دو اگر ایسا کر سکتی ہوتو میں زندگی کے آخری سانسوں تک تمہارا ساتھ نباہنے کو تیار ہوں۔ ٹھیک ہے، میں تمہارا ساتھ دوں گی تم جب کہو کے میں گھر چھوڑ کر تمہارے ساتھ نکل چلوں گی لیکن جلد ایسا کرنا ہوگا کیونکہ منگنی کی رسم سے پہلے ہی میں تمہاری ہو جانا چاہتی ہوں اور کسی اور کے نام کی انگھوٹھی اپنی انگلی میں نہیں پہننا چاہتی۔ اچھی طرح سوچ لو کیونکہ مجھے تم جب بھی کہو گی تم کو لے چلوں گا۔ میرا گھر چھوڑنے کا مسئلہ اتنا گھمبیر نہیں ہے جتنا کہ تمہارا ہے۔ سوچ لیا ہے کسی کے ساتھ سسک سسک کر جینے سے بہتر ہے تمہارے ساتھ خوشیوں بھری زندگی گزاروں۔ یہ میرا حق ہے کیونکہ میری سانسیں میرا بدن میری زندگی میری اپنی ہے۔ تو کیوں میں اپنی روح کو کسی اور کے شکنجے میں دوں۔ صرف دوسروں کی خوشنودی کی خاطر … وہ قائل نہ بھی تھا تو میں نے اس کو قائل کر لیا اور پھر ہم نے کورٹ میرج کا پروگرام بنا لیا۔ دن اور وقت طے ہو گیا۔ اس نے کہا کہ رات کو دو بجے میں تمہارا انتظار کروں گا- تمہارے گھر کے پیچھے گلی میں آجاؤں گا۔ جب رات کے دس بج گئے میں بہت پریشان ہو گئی۔ سوچ رہی تھی کہ گھر والے سب سو جائیں تو میں کپڑے تبدیل کروں اور بیگ میں تھوڑا سا سامان ضرورت کا اور چند جوڑے کپڑے رکھ لوں، بارہ بجے تک سب ہی سو گئے۔ تب میں نے نہا کر کپڑے بدلے۔ بال خشک کئے پھر بیگ تیار کیا، بہت آہستہ آہستہ سارے کام کئے کہ کھٹکا نہ ہو اور نہ کسی کی آنکھ کھلے۔ مقررہ وقت سے پانچ منٹ پہلے بیگ اٹھا کر میں گھر سے نکل آئی۔ دروازے کی کنڈی بھی نہیں لگائی کہ کھٹکا نہ ہو جائے۔ گھر کا پچھلا دروازہ جو عقبی کی طرف کھلتا تھا اس کو کھلا ہی چھوڑ دیا۔ چند قدم آگے آئی تو منیر ایک خالی مکان کی دیوار سے لگا کھڑا تھا۔ اس کو دیکھ کر جان میں جان آگئی اور وہ بھی مجھے دیکھتے ہی تیزی سے میری طرف آیا۔ میرا بیگ ہاتھ میں لے لیا اور تھوڑا سا چلنے کے بعد ہم گلی کے نکڑ پر پہنچے، جہاں اس نے گاڑی کھڑی کر رکھی تھی، شکر ہے کسی نے نہیں دیکھا اور ہم بحفاظت محلے سے نکل کر بڑی سڑک پر آگئے، اب ہمارا رخ لاہور کی طرف تھا۔ رات بھر سفر کے بعد صبح 10 بجے کے قریب ہم اب لاہور پہنچ گئے ۔ کافی تھکن ہورہی تھی لہذا منیر نے گاڑی ایک ہوٹل پر کھڑی کر دی اور ہم نے ہوٹل میں کمرہ کرائے پر لے لیا تا کہ کچھ آرام کرلیں۔ منیر نے اپنا شناختی کارڈ جمع کرا دیا تھا۔ ہمیں ہوٹل میں کرائے کا کمرہ مل گیا۔ ہم تھکے ہوئے اور کچھ خوفزدہ بھی تھے یہاں پرسکون ماحول ملا۔ بستر پر لیٹتے ہی نیند آگئی، دو بجے تک بے خبر سوتے ہے۔ دوپہر کو نہا دھو کر کھانا منگوایا۔ کھانا کھا کر منیر لیٹ گئے تو میں نے سوال کیا کہ گھر سے تو آگئے ہیں۔ اب بتاؤ آگے کیا کرنا ہے کہا تھوڑی دیر سوچنے دو کہ کیا کرنا ہے۔ پہلے نکاح کا انتظام کیا جائے تا کہ ہمارا ساتھ جائز رہے۔ وہی تو سوچ رہا ہوں یہاں لاہور ہائی کورٹ میں میرا ایک دوست وکالت کرتا ہے۔ اس کے پاس جاتا ہوں اس سے بات کر کے پھر تم کو آکر کورٹ لے جاؤں گا اور نکاح ہوگا۔ گواہوں کا انتظام بھی شاید وہی کر دے گا لیکن اس سے پہلے ہمیں رہائش کا سوچنا ہے نکاح کے بعد کہاں جائیں گے۔ عمر بھر تو اس ہوٹل میں نہیں رہ سکتے ، زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ رہ سکیں ے۔ کوئی مکان کرایہ پر تلاش کرنا ہوگا، ابھی فورتھ ائیر کے پرچے دینے ہیں۔ یہ سارے مسئلے حل ہو جائیں گے لیکن والدین کو جب پتہ چلے گا کہ ہم نکل آئے ہیں، وہ ہم کو تلاش کریں گے اس کا کیا ہوگا ….. اس سوال پر منیر نے متفکر ہو کر کہا ہاں یہ زیادہ سنگین مسئلہ ہے، مجھ پر پولیس کیس بھی بن سکتا ہے اور وہ اغوا کا پرچہ درج کر سکتے ہیں۔ میں نے اپنے گھر والوں کو بھی نہیں بتایا ہے یقیناً ان کو پولیس گرفتار کرے گی ، مشکلات کا سامنا انہیں کرنا پڑے گا۔ یہ باتیں ہم ڈسکس کر رہے تھے اور پریشان ہو رہے تھے کہ گھر سے قدم نکالتے وقت تو ایسا کچھ سوچا نہیں تھا اور اب یہ باتیں سوچ رہے تھے۔ اس وقت آنکھوں پرعشق کی پٹی بندھی ہوئی تھی ، معاشرتی حقائق اور مشکلات ذہن میں ہی نہیں آئے تھے اور یہ حقیقی عفریت منہ پھاڑے سامنے کھڑے تھے۔ منیر نے کہا میں آصف وکیل کے پاس جاتا ہوں اور کورٹ میرج کی بات کرتا ہوں، دیکھوں وہ کیا ٹائم دیتا ہے، پھر تم کو لے چلوں گا تم ہوٹل کے کمرے کو اندر سے لاک کر لینا جب تک کہ میں نہ آؤں دروازہ بجے بھی تو مت کھولنا۔ میں مینجر کو بتا دوں گا اور دو چار گھنٹے تک آجاؤں گا گھبرانا نہیں۔ یہ کر وہ چلا گیا اور میں اس کا انتظار کرنے لگی۔ کمرے میں ٹی وی رکھا تھا، اس کو آن کیا اور دل بہلانے لگی۔ شام کو منیر لوٹ آیا۔ بتایا کہ آصف مل گیا ہے۔ کل کاغذات ٹائپ ہوں گے اور گواہوں کا انتظام ہو گا، پھر تم کو لے جاؤں گا کیونکہ کورٹ میں میرا بیان بھی قلمبند ہوگا۔ اگلے روز وہ صبح ہی چلا گیا اور پھر صبح سے شام ہو گئی منیر نہ لوٹا، میرا جی گھبرا رہا تھا۔ بار بار گھڑی دیکھتی تھی لیکن وقت جیسے تھم گیا تھا۔ ٹی وی آن کیا تو ایک ہولناک خبر سنی کہ ہائیکورٹ کی بلڈنگ کے قریب ہی خود کش دھماکا ہو گیا تھا۔ بہت سے پولیس والے اور راہگیر مر گئے اور بہت سے زخمی ہوئے تھے ، یہ خبر سنتے ہی کلیجہ تھام لیا کیونکہ منیر بھی تو ادھر گیا ہوا تھا۔ شام سے رات ہو گئی۔ وہ نہیں آیا۔ خدا جانتا ہے کہ وہ رات کیسے گزاری۔ پل بھر کو آنکھ نہ لگی۔ شب بھر منیر کی خیر و سلامتی کی دعا کرتی رہی۔ رات کا کھانا بھی نہ کھایا۔ بیرے نے ایک بار در بجایا مگر میں نے کھولا اور نہ جواب دیا تو وہ لوٹ گیا۔ صبح ہوئی اور منیر نہیں آیا تو میں سمجھ گئی کہ کچھ ہو چکا ہے۔ دوپہر کو منیجر نے فون کیا۔ ڈرتے ڈرتے میں نے ریسیور اٹھایا۔ اس نے بتایا کہ منیر صاحب شدید زخمی تھے۔ خودکش دھماکے میں ان کی ٹانگیں اڑ گئی تھیں۔ اسپتال میں ان کو ہوش نہیں آسکا وہ چل بسے ہیں اور ان کی جیب سے ہمارے ہوٹل کا کارڈ ملا تو اسپتال والوں نے فون کیا ہے۔ آپ ان کے گھر والوں کا پتہ دیں۔ میں نے منیر کے والد کا نمبر لکھوادیا اور منیجر سے کہا کہ ان کو میرا مت بتائے گا کیونکہ ہم گھر والوں سے چوری چھپے نکلے تھے اور وہ کورٹ میں کورٹ میرج کے سلسلے میں اپنے ایک وکیل دوست سے ملنے گئے تھے- بدنصیبی سے سانحے کی زد میں آگئے۔ ایسا کہتے ہوئے میں رورہی تھی ۔ تب منیجر نے کہا گھبراؤ نہیں مجھ کو اپنا بھائی سمجھو اور جہاں کہو میں پہنچانے کا انتظام کر دیتا ہوں، البتہ سامان آپ ۔ ساتھ نہیں لے جاسکتیں یہ ہمیں منیر صاحب کے وارثوں کے حوالے کرنا ہوگا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے میں تھوڑی دیر میں سوچ کر بتاتی ہوں۔ میجر پر مجھے اعتبار نہ تھا، یقینا وہ مجھ کو پولیس کے حوالے کرنا چاہتا تھا۔ وہ محض مجھ کوتسلی دے رہا ہے تب ہی میں نے اپنی دانست میں چالاکی سے کام لیا۔ بیرے کو بلا کر دو ہزار روپے دیئے اور کہا کہ تم میرے بھائی ہو۔ کسی طرح مجھے یہاں سے نکالو لیکن اس طرح کے منیجر کو خبر نہ ہو بیرے نے کہا دو ہزار نہیں اگر پانچ ہزار دو گی تو تمہیں یہاں سے ایسے نکالوں گا کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوگی، ورنہ پولیس ابھی یہاں پہنچ جائے گی یہ دشوار کام ہے۔ میری نوکری خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اس وقت میں بہت گھبرائی ہوئی تھی ۔ گھر والوں سے خوفزدہ تھی کہ کچھ نہ سوچا اوپر سے پولیس کا ڈر تھا کہ منیجر ضرور کوئی ایسی کارروائی کرنے میں لگا ہے کہ چند لمحوں بعد میں گرفت میں آجاؤں گی۔ حالانکہ بم دھماکے میں جاں بحق ہونا منیر کے لئے تو ایک حادثاتی سانحہ تھا مگر میرا اس کے ساتھ گھر سے بھاگ آنا جرم ہی گردانا جاتا۔ پس میں نے پانچ ہزار بیرے کو دیئے اور اس نے مجھ کو ہوٹل سے باہر جانے کا دوسرا راستہ دکھا دیا۔ جب میں پہلی سیڑھی سے باہر آئی تو کسی نے نہیں دیکھا۔ وہاں ٹیکسی کھڑی تھی بیرے نے مجھ کو اس میں بیٹھ جانے کا اشارہ کر کے کہا کہ یہ تم کو میرے گھر لے جائے گی ، وہاں جا کر آرام سے بیٹھ جانا اور میں ڈیوٹی ختم کر کے آجاؤں گا، پھر تم جہاں کہو گی تم کو پہنچا دوں گا۔ منیر کا سامان میں نے ہوٹل میں رہنے دیا تھا۔ صرف اپنا بیگ جس میں میرے کپڑے نقدی اور کچھ زیورات تھے ساتھ لیا۔ ٹیکسی ڈرائیور نے مجھے بیرے کے گھر کے دروازے پر اتارا شاید وہ اس کو جانتا تھا۔ بیرے کا نام افتخار تھا اور یہ ٹھیک آدمی نہیں تھا۔ ہوٹل میں جو مرد عیاشی کے لئے آکر ٹھہرتے تھے یہ ان کو غلط قسم کی تفریح مہیا کرنے کا ذریعہ تھا لہذا اس کا رابطہ اس بازار سے بھی رہتا تھا۔ افتخار رات کو آ گیا۔ اس کے گھر میں خواتین نہیں تھیں اکیلا ہی رہتا تھا۔ آتے ہی اس نے ایک عورت کو فون کیا ۔ تھوڑی دیر میں وہ عورت آئی دونوں نے کچھ دیر تک دوسرے کمرے میں گفت و شنید کی پھر بولا بشری بی بی یہ میری خالہ ہیں، قریب ہی رہتی ہیں تم ان کے گھر چلی جاؤ کیونکہ میں یہاں اکیلا رہتا ہوں لہذا تمہارا یہاں رہنا مناسب نہیں ہے۔ یہ تم کو کل یہاں پہنچا دیں گی۔ چاہو تو اپنا سامان رہنے دو یا ساتھ لے جاؤ خالہ نے کہا ان کا سامان یہیں رہنے دو کل میں منگوالوں گی ، ابھی رات ہو رہی ہے اور ہم دونوں عور تیں ٹیکسی میں جائیں گی سامان لے جانا ٹھیک نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان بیگ میں زیور وغیرہ یا کوئی قیمتی سامان بھی ہو۔ میں منیر کی ہلاکت کے صدمے سے نیم جان تھی- اوپر سے خالہ کی ہمدردانہ باتیں اور بار بار گلے لگا کر کہتی تھیں مت رو میری بچی رونا نہیں۔ مجھے ماں سمجھو۔ جیسا کہو گی ویسا ہی ہوگا ۔ بھروسہ رکھو۔ کل تک تجھے تیرے گھر پہنچا دوں گی۔ اس شاطر عورت نے میرا سامان افتخار کے حوالے کیا اور مجھے ٹیکسی میں بٹھا کر اس جگہ لے آئی جس کو بازار حسن کہا جاتا ہے، میں جب یہاں آئی اور ماحول کا اندازہ ہوا تو ہکا بکا رہ گئی۔ منیر کے مرنے کا غم بھی بھول گئی ، سامنے اپنی عزت کی موت نظر آرہی تھی، اس جگہ آنے سے تو مر جانا کیا برا تھا، کاش میں منیر کے ساتھ ہی بم دھماکے میں اڑ جاتی۔ میں تھر تھر کانپ رہی تھی۔ ہاتھ پیر پھولے ہوئے تھے ۔ عورت کے کوٹھے پر لوگ آگئے تھے۔ میری آنکھیں حیرت سے پھٹنے لگیں کہ ان میں ایک پولیس افسر کے ساتھ میرا کزن منصب خان بھی تھا۔ منصب کو دیکھ کر سمجھ میں نہ آرہا تھا کہ رویؤں یا ہنسوں۔ میں ہمت کر کے پردہ ہٹا کر اس کی طرف دوڑی اور اس کے پاس جا کر رونے لگی وہ بھی مجھے کو دیکھ کر حیران پریشان ہو گیا تو میں نے کہا۔ منصب میں رستہ بھول گئی تھی اور یہ لوگ دھوکے سے یہاں لائے ہیں خدا کے لئے مجھے یہاں سے لے چلو۔ کب لائے تھے یہ تم کو ؟ ابھی تھوڑی دیر پہلے، میں نے جواب دیا۔ اچھا فکر نہ کرو اس نے اپنے پولیس آفیسر دوست سے کچھ کہا اور اس نے بالا خانے کی مالکہ کو آڑے ہاتھوں لیا۔ میں نے دیکھا عورت خوفزدہ ہوگئی۔ اس نے ہاتھ باندھے اور پھر منصب سے کہا کہ بے شک اس کو لے جاؤ کیونکہ ابھی میں نے اس کے پیسے نہیں دیئے، اصل مجرم ہوٹل کا بیرا افتخار ہے، اس کا سامان بھی اسی کے پاس ہے، وہی اسے فروخت کرنے لایا تھا۔ منصب میری سوتیلی والدہ کا بھانجا تھا۔ وہ مجھے ساتھ لے آیا اور اپنے دوست پولیس والے سے کہا کہ یہ میری خالہ کی بیٹی ہے، اس لئے بات نہیں نکلنی چاہئے ، ورنہ خاندان کی بدنامی ہوگی ۔ غلطی سے ان بد معاشوں کے ہاتھ چڑھ گئی۔ شکر ہے ہم یہاں بر وقت آگئے۔ بہر حال میں صبح ہی اس کو گھر لے جاؤں گا تم افتخار سے اس کا بیگ برآمد کراؤ جس میں اس کا شناختی کارڈ، زیور اور نقد رقم ہے۔ وہ رات میں نے منصب کے ساتھ گزاری۔ گرچہ میرا دل منیر کے لئے دکھ سے بھرا ہوا تھا مگر میں نے منصب پر یہ ظاہر نہ ہونے دیا کہ مجھ کو منیر کا دکھ ہے اور میں اس کے لئے رورہی ہوں۔ گناہ منیر نے میرے ساتھ نہیں کیا کیونکہ وہ نکاح کے بعد جائز رشتے سے ملنا چاہتا تھا ، تا کہ خدا ہم سے خوش ہو مگر موت نے اس کو مہلت نہ دی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو گناہ سے بچا لیا۔ وہ ایک سچا انسان تھا مگر منصب میں خود پر قابو پانے کا حوصلہ نہ تھا، اس لئے مجھے اس بازار کی گندگی بننے سے تو بچا لیا تھا مگر خود اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا، جب میں زار و قطار روئی تو وہ شرمندہ ہوا اور اس نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ مجھے سے شادی کرے گا اور معافی بھی مانگی مگر اب کیا فائدہ تھا لوٹ لینے کے بعد کوئی معافی مانگے تو دامن تار تار ہی رہتا ہے۔ اگلے دن منصب مجھے گھر لے آیا اور میرے والدین کو سمجھایا کہ اس کو کچھ مت کہنا جوغلطی ہوئی ہے اس کو معاف کر دیجئے اور شکر کیجئے کہ اس کی عزت اس بازار میں نیلام ہونے سے بچ گئی ، اس روز اگر میں اپنے اس پولیس آفیسر کے ساتھ وہاں نہ جاتا تو نجانے اس پر کیا قیامت گزر جاتی۔ اللہ کا کرم ہوا کہ میرا وہاں جانا آپ کی عزت کے تحفظ کا سبب بن گیا اور شاید منیر کی موت بھی اسی طرح لکھی تھی کہ وہ بھیانک حادثے میں اس طرح دنیا سے چلا گیا۔ یہ حقیقت تو بہرحال سب کو پتہ چل چکی تھی کہ میں منیر کے ساتھ بھاگی تھی مگر موت اس کو لے جا چکی تھی لہذا کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ منصب کے سمجھانے پر امی ابو خاموش ہو گئے ۔ اگرچہ مجھ سے ناراض بہت تھے اور بات بھی نہ کرتے تھے مگر مار پیٹ سے کام نہیں لیا کہ اس میں ان کی بدنامی تھی ، پھر منصب نے ابو کو یقین دلا دیا تھا کہ فکر مت کریں، میں آپ کی بیٹی سے شادی کروں گا۔ اب کوئی اس سے بدسلوکی نہ کرے اور نہ گھر سے بھاگنے کا طعنہ دے۔ منصب ہر دوسرے تیسرے دن مجھے فون کرتا تھا اور میری خیریت دریافت کرتا تھا۔ کبھی کبھی میں بھی فون کرتی کہ میری اندھیری زندگی کی اب وہ ایک ہی اس تھا۔ ایک روز اس کا فون نہ آیا اور میں نے بھی فون نہیں کیا تو اگلے دن اس نے فون کر کے کہا کہ بشری رات تم نے بھی فون نہیں کیا کیوں؟ میں انتظار کرتا رہا۔ مہمان آئے ہوئے تھے جس کی وجہ سے میں نے فون کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ میں نے بہانہ کیا۔ تم کو پتا ہے جس رات میں تم سے بات نہیں کرتا ہے کہ اس شب یہ کالی رین گزرنے کا نام نہیں لیتی اور تم ہو کہ بات نہیں سمجھتیں ، میں سمجھتیں ہوں مگر مجبوری ہے۔ اچھا میں تمہارے شہر آرہا ہوں ، صرف تم کو دیکھنے چھپ نہ جانا۔ سامنے ضرور آنا اچھا کہہ کر میں نے فون بند کر دیا۔ دل گھبرانے لگا – بے شک منصب کو مجھ سے پیار ہو گیا تھا مگر میں جانتی تھی کہ اس کی منگنی اس کے ماموں کی بیٹی آسیہ سے ہو چکی ہے اور مجھے سے شادی کرنے کے لئے اس کو اس رشتے سے بغاوت کرنی پڑے گی جو میری امی کو کسی صورت گوارہ نہ تھا۔ منصب گھر آتا تو بھی امی کے سامنے ہم بات نہ کرتے کہ ماں اپنے بھانجے کا مجھ سے گھلنا ملنا سخت نا پسند کرتیں ، تاہم فون پر اس نے کہا کہ صرف تم سے ملنے آرہا ہوں۔ وہ یہاں اپنے گھر والوں سے ملنے آ رہا تھا، پھر اس نے مجھ سے ملنے آنا تھا مگر گھر پر بات نہیں ہو سکتی تھی لہذا اس نے یہاں آکر فون کیا کہ پھر تم فرح کے گھر آجاؤ وہاں بات کر لیتے ہیں۔ فرح اس کے چچا کی بیٹی تھی اور ان کا گھر قریب ہی تھا۔ مجبوراً میں نے امی سے کہا کہ فرح بیمار ہے، کیا میں پوچھنے چلی جاؤں وہ بولیں ہرگز نہیں۔ شام ہونے والی ہے یہ کون سا وقت ہے فرح کے ہاں جانے کا تمہارے ابا ناراض ہوں گے۔ میری بہن نے طرفداری کی ۔ امی جانے دونا بھیا چھوڑ آئے گا۔ ہر گز نہیں۔ آج کل جوان لڑکی کو بھیجنے کا زمانہ نہیں لوگ پہلے ہی کیا کم باتیں بناتے ہیں۔ اتنے میں فرح کے گھر سے اس کا چھوٹا بھائی آگیا کہ فرح باجی کو اسپتال لے جارہے ہیں ، تب امی کا دل پسیجا، بولیں تم لوگ گھر پر رہو۔ میں خود جاتی ہوں وہاں۔ اسی دم وہ فرح کے گھر چلی گئیں۔ ان کے جانے کی دیر تھی کہ منصب گھر آگیا، دراصل اس نے فرح کے بھائی کو بھیجا تھا۔ امی گھر پر نہ تھیں ۔ اب ہم بات کر سکتے تھے، تب اس نے کہا بشری ۔ تم ماں کو راضی کر لو کیونکہ تمہیں پتہ ہے کہ میری ماں آسیہ کے علاوہ کسی کو بہو نہ بنائیں گی وہ ضد کی پکی ہیں۔ یہ ناممکن ہے تمہاری خالہ میری سگی ماں نہیں ہے، تم جانتے ہو تم ان کو راضی کر سکتے ہو تو کوشش کر کے دیکھو میں ان کے سامنے زبان نہیں کھول سکتی ۔ اچھا بتاؤ اگر ہماری شادی پر کوئی راضی نہ ہو تو کیا تم مجھ سے کورٹ میرج کر لو گی ۔ اس کی بات سن کر مجھ کو ٹھنڈا پسینہ آگیا کیا کہہ رہے ہو۔ منصب ایک بار پہلے بھی میں اس راہ گزر چکی ہوں اور رستہ بھول چکی ہوں تم نہ ملتے تو تباہی میرا مقدر تھی لیکن اس بار ایسا نہ ہوگا، میں جو تمہارے ساتھ ہوں ۔ تم خود اپنے اور میرے گھر والوں سے بات کرو گے منصب، میں کسی سے کچھ نہیں کہوں گی … کوشش تو کرو اس نے کہا آگے مقدر کی بات ہے لیکن کوشش کرنے میں ہرج ہی کیا ہے۔ یہ ناممکن ہے ہاں اگر تم میرے والد صاحب کو راضی کر لو تب شاید یہ ممکن ہو جائے۔ منصب نے گھر جا کر اپنی والدہ سے بات کی۔ اس کی ماں نے میری ماں سے کہا امی نے اس وقت مجھ پر غصہ اتارنا شروع کر دیا۔ کہ کیا تجھے اسی ان کے لئے پروان چڑھایا تھا۔ اب جو تیری خالہ کہہ رہی تھی مجھے تو سن کر شرم آرہی تھی تو مر کیوں نہ گئی بے حیا ، پہلے ایک کے ساتھ بھاگی، اب دوسرے کے ساتھ دوستی کرلی ہے۔ منصب میرا خون ہے۔ کیا وہ تھوکا چاٹے گا؟ تم نے ڈورے ڈالے بھی تو کس پر؟ میرے بھائی کی بیٹی آسیہ کے حق پر ڈاکہ ڈالنے جارہی ہے بے غیرت ۔ تو نے ہمیں ڈس لیا ہے، ہم تو برباد ہو گئے ہیں۔ اگلے دن خالہ آگئیں بولیں میرا بیٹا کہہ رہا ہے کہ بشری کے سوا کسی سے شادی نہ کرے گا۔ جان دے دے گا ۔ کیسی بے حیا ہے تمہاری لڑکی کہ میرا بیٹا اپنے منہ سے نام لے رہا ہے۔ میں رونے لگئی امی ان کی باتیں مت سنیں، ان کا بیٹا خود میرے پاس آیا تھا۔ میں نہیں گئی تھی ان کے بیٹے کے پاس. بکواس بند کر بے حیا کچھ شرم کر لڑکے ایسی لڑکیوں سے شادی نہیں کرتے جو گھر سے بھاگ چکی ہوں ۔ اس نے تم سے شادی کر بھی لی تو کچھ دن بعد چھوڑ دے گا۔ وہ ہمارا خون ہے، میں اس کو اچھی طرح سے جانتی ہوں۔ امی نے مجھ کو اتنی سنائیں کہ میں خون کے آنسو رونے لگی۔ آخر کار کمرے میں بند ہوئی ۔ تب ہی فون کی گھنٹی بجی۔ منصب کا فون تھا۔ اس نے کہا سیدھی انگلیوں سے گھی نہیں نکلے گا، ہمارے بزرگ یوں ماننے والے نہیں ہیں۔ میں کسی قیمت آسیہ سے شادی نہیں کروں گا اور تم اپنی عصمت کا گوہر میرے حوالے کر چکی ہو تو بہتر ہے کہ شادی بھی مجھ سے کر لو۔ کیسے کروں کوئی مانتا نہیں روتے ہوئے میں نے کہا- ایسے ہی جیسے منیر کے ساتھ بھاگ کر شادی کرنے چلی گئی تھی- میرے لئے کیا گھر کی دہلیز پار نہیں کر سکتیں جبکہ میں نے تمہارے ماضی کو ایشو نہیں بنایا ہے۔ تم کو واپس گھر پہنچایا ہے۔ کیا اب بھی میری محبت کا اعتبار نہیں ہے؟ ہمت کرو اور نکلو گھر سے ، ہم کراچی جا کر کورٹ میرج کر لیں گے۔ غرض وہ مجھے اکساتا رہا اور مجھے ماں کی باتیں یاد آرہی تھیں ، تب بن سوچے سمجھے میں نے کہہ دیا کہ میں آجاؤں کی جگہ بتا دو۔ اس نے وقت اور جگہ بتا دی اور کہا کہ میں لینے آجاؤں گا گھبرانا نہیں آسیہ سے چھٹکارا پانے کا بس یہی ایک طریقہ ہے- میرے دل میں بھی سوتیلی ماں کے خلاف انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی کیونکہ انہوں نے مجھے بہت ستایا اور رلایا تھا ، بہت گندی گندی گالیوں سے نوازا تھا۔ بے عزتی اور اہانت کرنے میں کوئی کسرنہ چھوڑی تھی۔ رات کو میں نکل گئی ، گرچہ ضمیر ملامت کرتا رہا سارا دن یہی سوچتی جاتی تھی کہ جو میں کر رہی ہوں ٹھیک ہے۔ جب گاڑی کراچی کے اسٹیشن پر رکی میں نے ادھر ادھر دیکھا منصب مجھے کہیں دکھائی نہ دیا۔ دو گھنٹے میں پلیٹ فارم پر کھڑی اس کی راہ تکتی رہی ادھر اُدھر ٹہلتی رہی۔ دو نوجوان کافی دیر سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ میرے قریب آگئے اور آنکھ مار کر بولے ہمارے ساتھ چلو گی میں گھبرا گئی۔ پسینے پسینے ہوگئی تو وہ قہقہے لگانے لگے کہ یار وہ نہیں آیا جس کے لئے یہ بھاگ کر آئی ہے، ایسا ہی لگتا دوسرے نے کہا تو چلے گی ہمارے ساتھ ہاہاہا ان کے قہقہے میرا پیچھا کرنے لگے۔ شام ہونے والی تھی اور لوگ عجیب عجیب نظروں سے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ کافی دیر ہو چکی تھی، میں نے سوچا شاید اب وہ نہیں آئے گا۔ زمانے کی تو عادت ہے دھوکا دینے کی۔ پھر بھی دل یہی کہتا تھا۔ نہیں وہ ایسا نہیں ہے۔ اب میں سوچ رہی تھی کہ اگر منصب نہیں آیا تو مجھے واپس جانا پڑے گا مگر میں کس منہ سے گھر والوں کا سامنا کروں گی، خاص طور پر اپنے والد کو کیا منہ دکھاؤں گی کہ جنہوں نے پہلی غلطی پر مجھے معاف کر دیا تھا۔ حالانکہ ان کی عزت نیلام ہوتے ہوتے رہ گئی تھی۔ ابھی یہ سوچ ہی رہی تھی کہ عقب میں قدموں کی آہٹ ہوئی۔ ڈرتے ڈرتے مڑ کر دیکھا تو میری سانس رک گئی منصب تھا مگر ساتھ ابو بھی تھے ابو کو دیکھ کر جان نکل گئی۔ اب ابو اور منصب آگے آگے تھے اور میں ایک مردہ لاش کی طرح ان پیچھے پیچھے چل رہی تھی، آخر ہم ایک ہوٹل آگئے۔ مجھے وہاں چھوڑ کر ابو اور منصب چلے گئے ۔ نکاح کا انتظام کرنے کے لئے ۔ اگلے دن میرا نکاح تھا ابو نے خود میرا نکاح منصب سے کرایا اور مجھے اس کے حوالے کر کے خود گھر واپس چلے گئے۔ انہوں نے گھرجا کر امی کو کچھ نہ بتایا کہ کیا ہوا ہے۔ جانتے تھے کہ امی نہ صرف ہنگامہ برپا کر دیں گی بلکہ ابو سے اس عمر میں طلاق مانگ لیں گی کہ میں نے ان کی بھابھی کے ہونے والے سرتاج کو اپنے سر پر سجا لیا تھا۔ کافی دن بعد ایک روز دروازہ بجا۔ میں نے کھولا سامنے بھائی کھڑا تھا مجھے دھکا دیا۔ میں گرتے کرتے بچی۔ منصب نے سنبھال لیا۔ بھائی چلا رہا تھا کہ میں تجھے زندہ نہ چھوڑوں گا، تیری لاش لے کر جاؤں گا۔ منصب نے اس کو روکنا چاہا۔ سمجھانا چاہا مگر وہ نہ رکا ۔ تب منصب نے میرے بھائی کو بتا دیا کہ اس کا اور میرا بندھن آپ کے والد صاحب کی رضامندی سے ہوا ہے اور تصویر اس کو دکھا دی، جس میں میرا اور منصب کا نکاح ہو رہا تھا اور ابو بھی اس تصویر میں موجود تھے۔ بھائی کا غصہ تھم گیا۔ منصب نے کہا۔ یہ سب تمہارے والد صاحب کی منصوبہ بندی سے ہوا ہے، کیونکہ تمہاری والدہ کسی صورت نہ مانتی تھیں تو ایسا کرنا پڑا- بھائی خاموش ہو کر لوٹ گیا لیکن پھر کبھی میرے دروازے پر نہیں آیا۔ اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد ابو فوت ہو گئے ۔ امی کو اصل حقیقیت پتہ چل چکی ہے۔ میں شب و روز ان کا انتظار کرتی ہوں لیکن وہ نہیں آتیں شاید انہوں نے میری صورت نہ دیکھنے کی قسم کھالی ہے۔

گھر کی قدر

1

مجھے میرے احساس نے ماردیاتھا۔ یہ کیا بات ہوئی کہ زندگی کی کوئی خوشی میرے پاس نہیں تھی۔ پریشان ہو کر رہ گیا تھا۔ دولت تو بہت دور کی بات ہے، کوئی گیسو کسی آنچل کا سہارا بھی نہیں تھا۔ اس ناامیدی کی کیفیت میں اپنے ایک جاننے والے اطہر بھائی سے ملاقات ہوگئی ۔ وہ ایسے آدمی تھے جن کو میں نے ہمیشہ خوش ہی دیکھا تھا۔ میں نے جب ان سے ان کی ہر دم خوشی کا راز پوچھا تو انہوں نے جواب دیا بہت آسان تھا۔ میاں ایک شعر شن لو۔اسی میں راز چھپا ہوا ہے۔ چلیں سنا دیں ۔ میں نے بے دلی سے کہا۔ خوشی کی جستجو دراصل غم ہے ۔ خوشی کو چھوڑ دے غم بھی نہ ہوگا ۔‘ انہوں نے شعر سنا دیا۔ شعر واقعی بہت اچھا تھا اور ایک فارمولہ بتا دیا گیا تھا کہ اس پرعمل کر جاؤ تو سب ٹھیک ہو جاۓ گا۔ اطہر بھائی۔ شعر تو بہت اچھا ہے۔ میں نے تعریف کی۔ میاں فارمولہ بھی اچھا ہے ۔ تم ابھی سے اس پر عمل کرو۔ ایک ہفتے کے بعد آ کر بتاؤ۔ کیا ہوا؟ میں اطہر بھائی کے پاس ایک خاص کام سے گیا تھا۔ اس دن میری جیب میں کچھ بھی نہیں تھا۔ میں نے یہ سوچا تھا کہ میں اطہر صاحب سے ایک ہزار روپے لے لوں گا ۔اس کے بعد وہیں سےٹیکسی کر کے راستے سے کھانے پینے کی چیز یں لے کر گھر واپس آ جاؤں گا۔ کم از کم دو دنوں تیک کا خرچ چل ہی جاۓ گا۔ گھر میں کوئی نہیں تھا۔ ابھی تک شادی نہیں ہوسکی تھی۔ اب یہ بتاؤ کہ اگر ہزار روپے مل جا ئیں تو تم خوش ہوجاؤ گے؟ظاہر ہے اطہر بھائی ۔اس سے کئی کام نکل جائیں گے- تو بس میں تمہیں پیسے نہیں دے رہا۔ تم کو ابھی سے اس فارمولے پر عمل کرنا ہے ۔ دیکھ لینا تم نے اس شعر کو اپنے ذہن میں اتارلیا تو پھر تمہیں کوئی غم بھی نہیں ہوگا۔“ میں ان سے پیسے لیے بغیر اس شعر کی سوغات لے کر واپس آ گیا۔ گھر آ کر مجھے نفیسہ کا خیال آیا۔ میں نے نفیسہ نام کی ایک لڑکی سے محبت کی تھی جو یہ چاہتی تھی کہ میں اس کے باپ سے جا کر ملوں۔ میں نے اسے ایک شعر بھی سنایا تھا۔ میری حیات کی راہوں میں پیچ وخم ہیں بہت می خوب سوچ لے پہلے جو میرے ساتھ چلے نفیسہ کے باپ سے ملاقات کو میں ابھی تک ٹال رہا تھا لیکن اب ان سے ملنا ضروری ہو گیا تھا۔ وہ ایک اعلیٰ سرکاری آفیسر تھے۔ ان کے ذریعے کوئی جاب بھی ہوسکتی میں نے نفیسہ کو فون کر کے کہا۔ ”میرا خیال ہے کہ میں تمہارے ابو سے جا کر مل ہی لوں۔ ہاں ہاں چلے جاؤ۔ اس نے کہا۔” میں نے ابو سےبات کی ہوئی ہے۔بس ان کو تمہارے آنے کا انتظار ہے۔ وہ تمہارا انتظار ہی کر رہے ہیں ۔ تم ان سے جا کر مل لو ۔“ نفیسہ کے والد ایک اعلی سرکاری عہدے دار تھے۔ بہت دھاک تھی ان کی ۔ ان کے پاس جاتے ہوۓ جھجک ی ہورہی تھی لیکن نفیسہ نے مجبور کر کے مجھے ان کے دفتر بھیج دیا۔ اس نے اپنے ابو سے میرے بارے میں بات کر لی تھی۔ میں دوسرے دن بہترین ڈریسنگ کر کے ان کے پاس پہنچ گیا۔ وہ اپنی پوری شان کے ساتھ اپنے کمرے میں ہی تھے۔آؤ صاحب زادے، آؤ۔نفیسہ نے مجھے تمہارے بارے میں بتا دیا تھا۔ جی جناب ۔ میں اس سے زیادہ کیا کہ سکتا تھا۔ بیٹھ جاؤ ۔ انہوں نے سامنے والی کرسی کی طرف اشارہ کیا۔ میں مؤدب ہو کر سامنے بیٹھ گیا۔ زندگی میں پہلی بارایسا انٹرویو دے رہا تھا۔ تم خدانخواستہ میری بیٹی سے عشق تو نہیں کرنے لگے ہو؟ انہوں نے ایک ایسا سوال کیا کہ میں چکرا کر رہ گیا۔ میرا خیال ہے کہ کسی بھی باپ نے براہ راست ایسا سوال ہونے والے داماد سے بھی نہیں کیا ہوگا۔ شرمانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں یا نہ میں جواب دو۔ عشق کیا جناب ، بس نفیسہ مجھے بہت پسند ہے ۔ میں اسے ہر حال میں خوش رکھوں گا ۔ میرا خیال ہے کہ ابھی ہماری گفتگو اتنی آگے نہیں بڑھی کہ تم خوش رکھنے یا نہ رکھنے کی بات کرو۔ انہوں نے کہا۔ میں ایک بار پھر چکرا کر رہ گیا۔ عجیب بے دھڑک انسان تھے۔ کام کیا کرتے ہو؟ انہوں نے پوچھا۔ جاب کی تلاش میں ہوں جناب ۔ میں نے کہا۔  مجھے امید ہے کہ بہت جلد کوئی ملازمت مل ہی جاۓ گی ۔ اور اس وقت تک کیا اپنی بیوی کو بھوکا رکھو گے؟“ نہیں جناب، سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ جو خود کھاؤں گا اس کو بھی کھلاؤں گا ۔“ جب تمہارے پاس خود کھانے کونہیں ہے تو اس کو کہاں سے کھلاؤ گے؟ ” اس کی فکر نہ کر یں۔ شادی کے بعد نفیسہ میرا مسئلہ ہوگی۔“ لیکن شادی سے پہلے تک تو میرا مسئلہ ہے نا؟ اور میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں تم جیسے نا کارہ انسان سے اپنی بیٹی کی شادی نہیں کر سکتے ۔ میرے سینے پر پر چھیاں ہی چل کر رہ گئیں۔ نفیسہ میرے لیے سب کچھ تھی۔ زندگی میں اب تک سواۓ محرومیوں کے اور کیا ملا تھا۔ کوئی خوشی نہیں۔ اب وہ بھی ہاتھ سے چلی گئی تھی۔ دل چاہا کہ در و دیوار سے لپٹ لپٹ کر آنسو بہاؤں۔ اور اسی وقت اطہر بھائی کا شعر یاد آ گیا۔ خوشی کی جستجو دراصل غم ہے ۔خوشی کو چھوڑ دے تم بھی نہ ہوگا ۔“ کلیجے میں ٹھنڈک کی پڑ گئی۔نفیسہ نہیں ملتی ناسہی اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔ میں کیوں ایک روگ پال کر بیٹھ جاؤں ۔خوشی کو چھوڑ دے۔اور میں نے خوشی کو چھوڑ دیا۔ میں نے نفیسہ کو فون کر کے مطلع کر دیا تھا کہ میں زندگی کی راہ میں اس کا ہم سفر نہیں بن سکوں گا۔ وہ کچھ دیر کی بک بک کے بعد خاموش ہوگئی۔شاید اسے بھی احساس ہوگیاتھا کہ اس کے باپ کا فیصلہ درست ہی تھا۔ اب زندگی کے کٹھن شب وروز میرے سامنے تھے۔ گھر میں کھانے کو بھی کچھ نہیں تھا۔ میں بھی بھی اپنا کھانا خود ہی بنالیا کرتا تھا۔ ورنہ عام طور پر سامنے والے ہوٹل سے جا کر کھا لیتا تھا- میں محلے کی دکان پر پہنچ گیا۔ دکان دار مجھے دیکھ کر خوش ہو گیا تھا۔ شاید اسے خیال آیا ہو کہ میں اس کا پچھلا قرض ادا کر نے آیا ہوں- تنویر بھائی, چاۓ تو چلے گی نا؟ اس نے پوچھا۔ بس دومنٹ میں آ جاۓ گی ۔ نہیں بھائی ، مجھے اس وقت چاۓ کی ضرورت نہیں ، میں نے کہا۔ ” مجھے تو بس دوکلو آٹا۔ ایک کلو چینی کھانےکا تیل دے دو ۔ ابھی لو۔ پچھلا حساب تو لے کر آۓ ہوتا ؟ نہیں بھائی، میں تو یہ بھی ادھار لے کر جاؤں گا۔ میں نے کہا۔ اچانک وہ بھڑک اٹھا۔ اس کی خوش اخلاقی ختم ہوگئی۔ رہنے دو بھائی رہنے دو۔ کمال ہے پچھلا قرض ادانہیں کیا اور چلے آرہے ہیں ادھار لینے ۔ اب کیا اس محلے میں بے وقوف بنانے کو ایک میں ہی رہ گیا ہوں۔ جاؤ بھائی کوئی اور دکان ڈھونڈو۔ اس کی بک بک سن کر بہت دکھ ہوا۔ سوچا تھا کہ سامان مل جاۓ گا تو دو چار وقتوں کے کھانے ایک ساتھ بنا کر رکھ لوں گا اچانک ایک بار پھر اطہر بھائی کا شعر یاد آ گیا۔ خوشی کی جستجو در اصل تم ہے۔ خوشی کو چھوڑ دے غم بھی نہ ہوگا ۔۔ میں نے خوشی چھوڑ دی اور کچھ لیے بغیر ہی واپس آ گیا۔ ہشاش بشاش کوئی غم نہیں تھا۔ دل پر کوئی بوجھ نہیں تھا۔ گھر کے دروازے ہی پر نیازی صاحب کھڑے ہوۓ دکھائی دے گئے۔ نیازی صاحب اپنی نوعیت کے ایک کمال انسان ہیں ۔ بہت خوش اخلاق اور بہت ہی شاہ خرچ ۔ انہوں نے ہمیشہ میری مدد کی ہے۔ ان کو دیکھ کر ایسالگا کہ خدا نے اس وقت فرشتہ بھیج دیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ نیازی صاحب نے میرا کس کس موقع پر ساتھ دیا تھا۔ جس کوارٹر میں رہ رہا ہوں اس کا ایڈوانس بھی نیازی صاحب نے دیا تھا۔ میں ان سے جا کر لیٹ گیا۔ بھائی اچانک کیسے آگئے؟ میں نے پوچھا۔ وبس تنویر صاحب! تمہاری یاد آئی تو تم سے ملنے چلا آیا۔ انہوں نے کہا۔ ”ارے یہ تو میری خوش نصیبی ہے۔ آئیں اندر آئیں۔ ہم اندر آ کر بیٹھ گئے۔ میں نے محسوس کیا کہ نیازی صاحب کچھ الجھے ہوئے تھے ۔ گھر میں اتنا چاۓ کا سامان تھا کہ دو چار کپ چاۓ بن سکتی تھی۔ میں نے انہیں چاۓ لا کر دی۔ کچھ دیر کے بعد انہوں نے کہا۔ تنویر صاحب, میں ایک عجیب کشمکش میں ہوں۔“ خیریت تو ہے، کیا ہوا؟ میں نے پوچھا۔ ہا۔ یہ ظاہر خیریت ہے لیکن اپنے وجود میں ایک ہلچل مچی ہوئی ہے۔ کیسی ہلچل ؟ بھئی بات میں ہے کہ میں لوگوں کا ساتھ دیتارہا ہوں ۔ آج بھی اس ارادے سے گھر سے نکلا ہوں لیکن ایک عجیب بات ہے۔ وہ کیا؟ میرا دل دھڑکنے لگا۔ بات یہ ہے کہ کسی کی مدد یا کسی کے کام آجانا میری خوشی رہی ہے۔ میں احسان تو نہیں کہتا کیونکہ اس میں میری خوشی ہے لیکن ہوا یہ کہ جن کو میں نے اپنے طور پر خوشیاں دیں۔ انہوں نے غم دیے۔ ایک قول ہے کہ جس پر احسان کرو، اس کے شر سے بچو۔ میں خوشی کی جستجو میں رہتا تھا اور ایسی خوشی مجھے کسی کے کام آ کرہی ملتی تھی ۔ آج بھی گھر سے پچاس ہزار لے کر نکلا ہوں۔“ ارے نیازی صاحب! یہ تو آپ کی بڑائی کی دلیل ہے۔ ورنہ اس زمانے میں کون کسی کا ساتھ دیتا ہے۔ انہوں نے باتوں باتوں میں مجھے ایک شعر سنادیا۔“ واہ۔ یہ تو اچھی بات ہوئی ۔ویسے وہ شعر کیا تھا؟“ تنویر صاحب ۔ یقین کر یں کہ اس شعر کو سنتے ہی ایسا لگا کہ میرے سرسے سارے بوجھ اتر گئے ہوں۔ سمجھ میں آ گیا کہ میں کہاں بھٹک رہا ہوں ۔ ” واہ صاحب۔ پھر تو بہت مبارک شعر ہوا۔ مجھے بھی سنائیں۔ شعر ہے۔

خوشی کی جستجو دراصل غم ہے۔

خوشی کو چھوڑ دے غم بھی نہ ہوگا۔

ایک بار پھر وہ لعنتی شعر میرے سامنے آ گیا تھا۔ ایک بات میں آپ سے کہنے آیا ہوں۔ نیازی صاحب نے کہا۔ ہوسکتا ہے کہ میں نے اب تک آپ کا ساتھ دیا ہو لیکن اب میں کچھ بھی نہیں کر سکوں گا۔ کیونکہ اس شعر کا مفہوم سمجھ میں آ گیا ہے۔ ارے نیازی صاحب ۔ میں بوکھلا کر بولا ۔لعنت بھیجیں اس شعر پر ۔ آپ تو نیکی کیے جائیں ۔ نہیں تنویر صاحب۔ اب اس قسم کی کوئی نیکی میں نہیں کر سکوں گا ۔ اس انقلابی شعر نے میری سوچ بدل دی ہے۔ میں یہی کہنے حاضر ہوا تھا۔ دل چاہا کہ یا تو اپنا گلا گھونٹ لوں یا اس شاعر کوزہر دے دوں جس نے بی شعر کہا ہوگا۔ نیازی صاحب کچھ دیر بیٹھ کر اس شعر پر لیکچر دے کر روانہ ہو گئے اور میں اپنے خالی پیٹ پر ہاتھ پھیرتا رہ گیا۔ خیر وہ دن تو کسی نہ کسی طرح گزار لیا۔شام کو بھوک نے جب بے تاب کیا تو میں اپنی خالہ کے پاس چلا گیا۔ وہ بھی اسی شہر میں اور میرے گھر سے کچھ فاصلے پر رہتی تھیں۔ وہ کباب بہت اچھےبناتی تھیں ۔ ان کے کباب کھا کر لطف آجا تا تھا۔ خالہ مجھے دیکھتے ہی خوش ہو گئیں ۔ ارے بیٹا تو بالکل صحیح وقت پر آیا۔ میں نے تیری پسند کے کباب بنائے ہیں۔“ کیا بات ہے خالہ آپ کی ۔ میں خوش ہو گیا خالہ ہو تو آپ جیسی ہو میں ایک طرف بیٹھ گیا۔ سوچ رہا تھا کہ کتنی دیر بعد کچھ کھانے کو ملے گا ۔ اس دوران وہی شعر میرے کان میں گونجنے لگا۔ ۔ خالہ میں نے آواز لگائی۔ خالہ میں جارہا ہوں۔ ایک کام یاد آ گیا ہے۔ ارےبیٹا کیاب تو کھا تا جا۔ انہیں خالہ پھر سہی اور میں اس مکان سے باہر آ گیا۔ باہر آتے ہی بھوک سے چکر سا آ گیا تھا ایک درخت کا سہارا لے کر کھڑا ہو گیا۔ اس وقت کسی نے مجھے آواز دی۔ ارے تنویر صاحب کہاں کھڑے ہیں؟ کیسے میں اسلم صاحب؟” میں نے پوچھا۔ کیا بتاؤں ؟ دل میں کیسی ہلچل مچی ہوئی ہے ؟ خیریت تو ہے نا کیا ہوا؟ موصوف شاعر بھی تھے۔ میرے پاس آکر بولے۔ خدا کی ۔ اس وقت کچھ اور مانگ لیتا تو شاید بھی مل جاتا۔ قبولیت کی گھڑی تھی لیکن میں نے آپ کو مانگا اور آپ مل گئے ایک بہت زبردست غزل رات کو کہی ہے۔ ایک مشاعرے میں پڑھنی ہے۔ لیکن میرا یہ دستور ہے کہ مشاعرے سے پہلے میں اپنے کسی دوست کو سنا کر دار لے لیتا ہوں ۔ تا کہ کچھ ہو گیا ہو تو وہ اصلاح کر دہے ۔ ارے صاحب میں اس قابل کہاں ہوں۔ میں گھبرا کر بولا ۔ شعرزده یہ کیا بات کر دی۔ آپ جیسا باذوق اور کہاں لے گا۔ چلیں سامنے والے ہوٹل میں بیٹھ جاتے ہیں۔ آپ بھی کہیں گے کہ کس مشکل زمین میں غزل کہی ہے۔ چلیں۔ انہوں نے میرا ہاتھ تھام لیا۔اب میں جا بھی نہیں سکتا تھا۔ وہ مجھے اپنے ساتھ ہوٹل میں لے آۓ ،انہوں نے دو چاۓ کے آرڈر کے ساتھ کچھ بسکٹ بھی منگوا لیے۔ اس وقت مجھے پیٹ میں کچھ سہارے کی شدید ضرورت بھی تھی۔ بسکٹ سامنے آئے اور اسی وقت وہ کم بخت شعر یاد آ گیا۔ اس وقت خالی پیٹ کچھ کھانا میرے لیے بہت ضروری ہو گیا تھا۔ ورنہ میں بے ہوش ہی ہو جاتا۔ لیکن پھر وہی شعر خوشی کو چھوڑ دے غم بھی نہ ہوگا۔ اس موقع پر بھی اس شعر نے میرا پیچھانہیں چھوڑا۔ لیں جناب۔“ اسلم صاحب نے بسکٹوں کی طرف اشارہ کیا۔ آپ کیوں یوں ہی بیٹھے ہیں؟“ نہیں اسلم صاحب۔ اس وقت کچھ نہیں لے سکوں گا۔ میرے پیٹ میں کچھ گڑ بڑ ہے۔“ “اوہو۔ پیٹ میں گڑ بڑ ہے تو آپ کو چاۓ بھی نہیں پینی چاہیے۔ جی جی ہاں۔ میری جان نکلی جارہی تھی۔ انہوں نے ایک لمحہ انتظار کے بغیر ایک چائے کا آرڈر کینسل کر دیا اور خود چاۓ اور بسکٹ کھانےلگے ۔ جبکہ میرا یہ حال تھا کہ میں غم اور خوشی کے فلسفے میں پھنسا ہوا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی جیب سے کچھ کاغذات نکالے اور اپنی بے تکی غزل سنانے لگے۔ ایک تو غزل بے تکی۔ پھر اتنی طویل جیسے پوری اردو شاعری لکھ کر لے آۓ ہوں۔ میں کچھ دیر تو بہت حوصلے سے سنتا رہا۔ پھر آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا اور میں بے ہوش ہو کر لڑھک گیا۔ ۔ اسلم صاحب مجھے پکار رہے تھے۔ کچھ اور آوازیں بھی تھیں۔ میرے منہ پر پانی کے چھینٹے دیے جارہے تھے لیکن مجھے ہوش نہیں تھا۔ نہ جانے کتنی دیر بعد ہوش آیا ہوگا۔ میں ایک بستر پر لیٹا تھا۔ نقاہت تو تھی لیکن اتنی نہیں جتنی پہلے محسوس ہورہی تھی۔ میرے بستر کے آس پاس کچھ اور بستر بھی تھے۔ جن پر مریض لیٹے ہوۓ تھے۔ مجھے ہوش میں دیکھ کر ایک مہربان صورت کی نرس میرے پاس آ گئی۔ اب کیسی طبیعت ہے؟ اس نے پوچھا۔ کون لایا ہے مجھے؟ تم کہیں بے ہوش ہو گئے تھے۔ لوگ اٹھا کر لائے لوگ لائے ہیں ؟ کمزوری کی وجہ سے یہ حال ہو گیا ۔ ڈاکٹر صاحب کا بھی یہی خیال تھا۔ تم اب ٹھیک ہو تو جاسکتے ہو لیکن کس کمبخت کا دل تھا کی وہاں سے جائے اس لیے وہیں پڑا سوچتا رہا کہ اس طرح کیسے گزر بسر ہو گی – اچھا تھا کہ گاؤں میں ہی رہتا – ابّا کی بات مان لیتا اور آنسہ سے شادی کر لیتا – کیا ہواجو وہ میٹرک پاس تھی – ابھی بھی کچھ نہ بگڑا تھا اس لیے ہسپتال سے نکل کر سیدھا پانچ سال بعد گھر پہنچا اور ابّا کے قدموں می سررکھ دیا – جوان بیٹے کو سینے سے لگانے میں دیر انہوں نے بھی نہیں کی تھی – ابھی تو کھڑی ٹیکسی کا کرایہ بھی ادا کرنا تھا اور امی کے ہاتھ کا بنا کھانا میز پر منتظر تھا – کیا ہے نا خالی شعرکہنے اور سننے سے پیٹ نہیں بھرتا – اب گھر میں سب کے ساتھ سکوں سے رہوں گا اور ابا کے ساتھ زمینوں پر جایا کروں گا – جوانی میں جاب کرنے اور خود سے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا جنوں بھی ختم ہو گیا اور دوستوں کی مصیبت میں دوستی بھی دیکھ لی-

Urdu Video Free Backgrounds

0

100+ Urdu video Free Backgrounds 

ہمارے پاس خوشخبری ہے! اگر آپ ڈیزائننگ، ویڈیو ایڈیٹنگ، یا ویب دیزائن میں ماہر ہیں یا صرف اچھی تصاویر اور ویڈیو بیک گراونڈز ڈاؤن لوڈ کرنا چاہتے ہیں، تو ہمارا انعام حاصل کریں۔ ہم آپ کو 100+ اردو ویڈیو بیک گراونڈز مفت میں فراہم کر رہے ہیں۔ یہ مختلف رنگوں، تصاویر اور طرز کے بیک گراونڈز شامل کرتے ہیں جو آپ کے پروجیکٹس کو رنگین بنائیں گے