ایسی تاریکیاں آنکھوں میں بسی ہیں فراز
رات تو رات ہےہم دِن کو جلاتے ہیں چراغ

میرؔ ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے

قیامت خیز ہیں آنکھیں تمھاری
تم آخر خواب کس کے دیکھتے ہو

جگر ہو جائے گا چھلنی یہ آنکھیں خون روئیں گی
وصی بے فیض لوگوں سے نبھاکر کچھ نہیں ملتا

سمندر میں اترتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
تری آنکھوں کو پڑھتا ہوںتو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here