سنا ہے اب محبت کرنے والا وفا کی شرط سے آزاد ہو گا

وفا کریں گے، نبھائیں گے، بات مانیں گے تمہیں بھی یاد ہے کچھ یہ کلام کس کا تھا

کل سیاست میں بھی محبت تھی اب محبت میں بھی سیاست ہے

سنا ہے اس کو محبت دعائیں دیتی ہے جو دل پہ چوٹ تو کھائے مگر گلہ نہ کرے

سنا ہے اس کو محبت دعائیں دیتی ہے جو دل پہ چوٹ تو کھائے مگر گلہ نہ کرے

قیس و فرہاد کے فرسودہ فسانوں پہ نہ جا کون مرتا ہے محبت میں ؟ سبھی جیتے ہیں

سات صندوقوں میں بھر کر دفن کر دو نفرتیں

آج انسان کو محبت کی ضرورت ہے بہت

فلک نے معجزہ مانگا تیری محبت کا تو جھوم جھوم کے صحراؤں سے اٹھا میرا دل

 

حرص و ہوس جس ذہن میں ڈیرہ کرے کیسے تقدیسِ محبت وہ سمجھا کرے ؟

یوں حسرتوں کے داغ محبت میں دھو لیے خود دل سے دل کی بات کہی اور رو لیے

 

یہ دنیا غم تو دیتی ہے شریکِ غم نہیں‌ہوتی کسی کے دور جانے سے محبت کم نہیں ہوتی

یہ دنیا غم تو دیتی ہے شریکِ غم نہیں‌ہوتی کسی کے دور جانے سے محبت کم نہیں ہوتی

 

 

6 COMMENTS

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here